یمن میں مزید ’ایک سو بیس افراد ہلاک‘
6 مئی 2015یمن میں اس وقت سب سے شدید لڑائی ملک کے جنوبی بندرگاہی شہر عدن میں ہو رہی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق چالیس افراد یہاں سے کشتی کے ذریعے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے اس وقت ہلاک ہو گئے جب حوثی باغیوں کی جانب سے ایک راکٹ شیل ان پر آن گرا۔
یمن کے حوثی باغیوں کے مطابق ایک روز قبل سعودی عرب کی قیادت میں جاری فضائی حملوں میں چالیس شہری موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ یہ ہلاکتیں سعودی سرحد کے قریب ایک یمنی صوبے میں رونما ہوئیں۔
چند روز قبل حوثیوں نے پہلی مرتبہ سعودی عرب کی سرحد کے قریب بھی حملہ کیا تھا، جسے سعودی حکومت کے بقول ناکام بنا دیا گیا تھا۔ تاہم یہ حملہ عرب ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
حوثی باغی یمن میں اب بھی طاقت ور ہیں حالانکہ سعودی عرب اور اُس کے اتحادی یمن پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی ابتدا چھبیس مارچ کو ہوئی تھی۔ اس فضائی کارروائی میں سعودی عرب کو اپنے خلیجی اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ امریکا اور برطانیہ بھی سعودی عرب کی کارروائی کی تائید کر چکے ہیں۔ ریاض کے مطابق حملوں کا مقصد یمن میں ایران نواز شیعہ حوثی باغیوں کی ملک میں بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکنا اور ملک پر صدر منصور ہادی کا کنٹرول بحال کرانا ہے۔ صدر ہادی اس وقت سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ یمنی دارالحکومت صنعاء اور کئی اہم شہروں پو حوثی قابض ہو چکے ہیں۔
یمن کی اس جنگ کو خطے کے بعض دیگر ممالک کی طرح ایران اور سعودی عرب کی علاقائی بالادستی کی جنگ یا ’’پراکسی وار‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تیل کی قلّت
یمن میں جاری تنازعے کے باعث ملک کے لیے درآمدات میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملک کے بیس ملین افراد بھوک کا شکار ہو رہے ہیں۔
تیل اور توانائی کی کمی کے باعث ہسپتالوں کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور غذائی قلّت پیدا ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے مطابق اس ملک کی تیل کی ضروریات چالیس ہزار لیٹر سے بڑھ کر دس لاکھ لیٹر تک جا پہنچی ہیں۔
ادارے نے سعودی عرب کے اس اعلان کو مسترد کر دیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ بعض علاقوں میں امدادی کاموں کو ممکن بنانے کے لیے وہاں صلح کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں جنگ بندی کی ضرورت ہے۔