یمنی سمندری حدود کےلئےخطرہ: قزاق بھی القاعدہ بھی
7 جولائی 2010یمنی حکام ان دنوں ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جس کے تحت وہ اپنی سمندری حدود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنا سکیں۔ یمنی کوسٹ گارڈز ان دنوں اس سلسلے میں ایک اڈے کے قیام میں مصروف ہیں۔
خلیج عدن میں آئل ٹینکروں، مال بردار جہازوں اور ماہی گیر کشتیوں کے خلاف قزاقوں کی مسلسل کارروائیوں کا سب سے زیادہ اثر یمنی بندرگاہ باب المنداب پر پڑا ہے۔ اس علاقے میں دنیا کے تقریباً 12 ممالک کی بحری افواج بھی قزاقوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں مصروف ہیں، تاہم جہازوں کے اغوا کی وارداتوں میں کوئی واضح کمی اب بھی نہیں دیکھی گئی۔
دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی طرف سے بحیرہء احمر اور خلیج عدن کے درمیان سمندری حدود کو مفلوج بنانے کی دھمکیوں کے بعد یمنی حکومت اور سکیورٹی فورسز نہایت پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ دنیا میں جہاز رانی کی صنعت کا تقریباً سات فیصد ہر سال انہی سمندری حدود کو استعمال کرتا ہے اور اس علاقے سے ہر سال لگ بھگ کوئی 25 ہزار جہاز گزرتے ہیں۔
عدن کی بندرگاہ باب المنداب کی انتظامیہ کے سربراہ محمد مبارک بن ایفان کے مطابق ’’جغرافیائی طور پر یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے جزیروں اور ساحلوں کے باعث سلامتی کی صورتحال کے اعتبار سے انتہائی حساس نوعیت کا حامل ہے۔‘‘
بن ایفان کے مطابق عسکریت پسند ممکنہ طور پر اس سمندری راستے کو اپنی کارروائیوں کے ذریعے بند کر سکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یمن کے جنوب مغربی بندرگاہی علاقے القاعدہ عسکریت پسندوں کی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
ایک یمنی عہدیدار نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں بتایا کہ فرانس اس سلسلے میں یمنی حکومت کو ایک بحری فوجی اڈے کی تعمیر میں مدد فراہم کر رہا ہے، اس طرح یمنی حکومت القاعدہ کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں کارروائیاں کرنے والے بحری قزاقوں سے بھی بہتر انداز سے نمٹ سکے گی۔
امریکی حکومت نے رواں برس مارچ میں خبردار کیا تھا کہ القاعدہ جنگجو ان سمندری حدود کو استعمال کرنے والے جہازوں کے خلاف بڑی دہشت گردانہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ باب المنداب کے جنوب میں خلیج عدن میں سن 2000ء میں امریکی جنگی جہاز کول پر ہونے والے خودکش حملے میں سترہ امریکی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے دو برسوں بعد القاعدہ نے ایک فرانسیسی سپر ٹینکر کو خلیج عدن ہی میں نشانہ بنایا تھا۔
واضح رہے کہ خلیج فارس سے یورپ اور امریکہ کو ہر برس تین ملین بیرل تیل کی ترسیل کی جاتی ہے اور یہ تمام جہاز انہی سمندری حدود ہی کو استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امجد علی