یونان کا مالیاتی بحران: یورپی ماہرین ایتھنز میں
24 فروری 2010یورپی یونین خاص کر یورو زون کی باقی پندرہ ریاستیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ یونان کی مدد کی جائے گی۔ لیکن یہ مدد اگر ہنگامی مالی امداد کی صورت میں ہوئی تو اس کی مالیت کتنی ہو گی، یہ حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ تاہم جس مشترکہ فیصلے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے، وہ یہ تھا کہ یورپی کمیشن، یورپی مرکزی بینک ECB اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کے ماہرین یونان کے متعدد دورے کریں گے، تاکہ ایتھنز حکومت کو درپیش مالیاتی مسائل کے حل میں اس کی معاونت کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ماہرین کو پہلا وفد اسی ہفتے اس وقت یونان پہنچا جب اگلے ہی روز یونانی کارکن حکومت کی انتہائی سخت بچتی پالیسیوں کے خلاف ملک گیر ہڑتال کرنے والے تھے۔
یونان کو یورو زون کی باقی پندرہ ریاستوں کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان ملکوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت بجٹ میں خسارے کو کم کرنے کے لئے سال رواں کے دوران سرکاری اخراجات میں اتنی کمی کرے جتنی آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
ایتھنز حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں واضح کمی کے علاوہ اور بھی کئی بڑے بچتی فیصلے کر چکی ہے۔ لیکن یونان میں موجودہ سوشلسٹ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر بہت تکلیف دہ قرار دئے جانے والے ان اقدامات کے خلاف ملک کے ہر حصے میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعلیٰ ترین اقتصادی ماہر اولیویئر بلانشرڈ کہتے ہیں کہ یونان جیسے یورپی ملکوں کو اپنے بجٹ معاملات میں آئندہ برسوں میں بہت تکلیف دہ حالات کا سامنا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے اقدامات کے اثرات بیس برس تک محسوس کئے جائیں۔
یورپی کمیشن، یورپی مرکزی بینک اور IMF کےماہرین نے ابھی حال ہی میں یونان کا جو کئی روزہ دورہ شروع کیا، وہ ایسے کئی دوروں کے سلسلے کا محض پہلا مرحلہ ہے۔ جہاں تک یونانی حکومت کی طرف سے اپنے مالیاتی مسائل خود حل کرنے کی کوششوں کا سوال ہے تو اس کا ایک بڑا مثبت پہلو بھی ہے۔
ایتھنز حکومت یہ واضح کر چکی ہے کہ وہ واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کوئی قرضے نہیں لینا چاہتی۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کی طرف سے بھی وہ کسی ہنگامی مالی امداد کی خواہاں نہیں ہے، بلکہ چاہتی ہے کہ یونان میں جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، برسلز ان کی حمایت کرے۔ ساتھ ہی ایتھنز میں موجودہ حکومت کو، جو گزشتہ برس اکتوبر میں اقتدار میں آئی تھی، یورپی کمیشن سے یہ شکایت ضرور ہے کہ برسلز میں یورپی رہنما یونانی ریاست کے ذمے قرضوں میں اس بے تحاشا اضافے کو سرے سے ہی نظر انداز کر رہے ہیں جس کی ذمہ دار موجودہ نہیں بلکہ گزشتہ ملکی حکومت بنی۔
اس کے برعکس برسلز میں یورپی کمیشن کے ایک ترجمان نے ایتھنز حکومت کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن یونان کی مالیاتی حالت اور یونانی حکومت کے مالیاتی اقدامات پر گزشتہ پانچ برسوں سے باقاعدہ نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ ’’اس کا ثبوت یہ ہے کہ یورپی کمیشن 2005 سے اب تک پانچ مختلف موقعوں پر یونان میں عوامی قرضوں کے بوجھ سے متعلق اعدادوشمار پر اپنی تشویش ظاہر کر چکا ہے۔‘‘
یورو زون کی ریاست یونان کو درپیش بحرانی مالیاتی حالات سے متعلق جرمن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں اور تجزیوں پر یونانی سیاستدانوں نے قدرے ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ دو مختلف ہفت روزہ جرمن جریدوں میں ابھی حال ہی میں شائع ہونے والے صفحہ اول کے مضامین میں یہ لکھا گیا تھا کہ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، اور ہو سکتا ہے کہ اگر یورپی یونین یونان کی مالی مدد کرے تو جرمنی کو اس مد میں 20 اور 25 بلین یورو کے درمیان رقوم ادا کرنا پڑیں۔
اس پر یونانی پارلیمان کے اسپیکر پیٹسالنیکوس اور ایتھنز کے میئرکاکلامانس نے کہا کہ یونان یورپی یونین سے کوئی ہنگامی مالی امداد نہیں چاہتا، اور یونانی مالیاتی بحران کے بارے میں جو کچھ جرمن میڈیا میں شائع کیا جا رہا ہے، وہ ’افسوسناک‘ ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق