1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہ تشدد کے سوا کچھ نہیں‘: سابقہ سلفی خاتون

روک کلاؤس/ نیہاؤس ایتا/ کشور مصطفیٰ15 جنوری 2015

جرمن نوجوان خاتون اشٹیفی کا سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ سلفی مسلمانوں سے ہوا۔ وہ جہاد تک میں شامل ہونے کے لیے تیار تھی۔

https://p.dw.com/p/1EKu6
تصویر: picture-alliance/dpa/Melanie Dittmer

ایسے نوجوان جو اپنے مستقبل کی سمت کے تعین یا اپنی راہ تلاش کرنے کی کوشش خود کرتے ہیں اکثر و بیشتر غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی جرمن نوجوان خاتون اشٹیفی کے ساتھ بھی ہوا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا رابطہ سلفی مسلمانوں سے ہوا۔ وہ جہاد تک میں شامل ہونے کے لیے تیار تھی۔ آج اشٹیفی کی عمر 25 سال ہے اور وہ اسلام قبول کر چُکی ہے تاہم دو سال پہلے اُس نے سلفی حلقے سے جان چھڑانے میں کامیابی حاصل کرلی۔

اشٹیفی کہتی ہے،" سلفیوں کا ایک خاص انداز ہے۔ وہ نہایت خوش اسلوبی سے لوگوں کو اپنے شیشے میں اتارتے ہیں۔ اس کے لیے سُنہری باغ دکھاتے ہیں۔ " تمہاری فیملی ہے، اگر تم جہاد میں جان بحق ہوگی تو تم سیدھے جنت میں جاؤ گی"۔ اس طرح کے وعدوں سے سلفی نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہیں۔ اشٹیفی آٹھ برس تک ان کے ساتھ رہی ہے۔ وہ بتاتی ہے، " سلفیوں کی طرف سے تبلیغی مواد کے طور پر جو ویڈیوز انٹرنیٹ پر شائع کی جاتی ہیں وہ محرک اثر رکھنے والی ہوتی ہیں۔ مجھ پر ان کا بہت شدید اثر ہوا۔ میں ان میں شامل ہوگئی۔ ایک وقت ایسا آیا جب میں یہ سوچنے لگی کہ مجھے ہر حال میں جہاد پر جانا چاہیے۔ میں حقیقی معنوں میں جنگ میں شامل ہونا چاہتی تھی"۔

Verschleierte Frau und eine Polizistin in Berlin 13.01.2013
جرمنی کی سڑکوں پر اکثر پورے چہرے کے نقاب والی عرب خواتین نظر آنے اگی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/F. Schuh

اشٹیفی اور اس جیسے بہت سے دیگر نوجوانوں میں اسلامی انتہا پسندی کا رجحان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا۔ اشٹیفی کے بقول وہ تمام مسلمانوں کو ایک جیسا سمجھتی تھی اور اسے ان میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اُس کے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے دائرے میں کوئی 100 افراد شامل تھے۔ اس میں سے کچھ کٹر یا انتہا پسند سوچ کے حامل بھی تھے۔

اشٹیفی اُن کے نجی معاملات کو تحفظ دینے کے لیے اُن کے نام نہیں لینا چاہتی۔ اس لیے نہیں کہ اُسے کوئی خوف ہے۔ اس کی عمر 15 سال تھی جب وہ سکینڈری اسکول کی طالبہ تھی اُس وقت اُس نے مذہب اسلام کو خود کے لیے منتخب کیا تھا۔

Reda Seyam
برلن کی ایک سڑک پر قرآن کے نسخے مفت بانٹنے والے سلفی مسلمانتصویر: imago/Christian Mang

اشٹیفی کی ایک کلاس فیلو کے والد ایک امام یعنی ایک مسلم عالم تھے۔ انہوں نے اشٹیفی کو ایک مسجد میں مدعو کیا۔ اشٹیفی نے نماز اور قران پڑھنا سیکھا اور ہیڈ اسکارف باندھنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے نئے مذہیب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی جستجو میں رہنے لگی۔ وہ سوشل میڈیا پر اس کی تلاش جاری رکھے ہوئے تھی کہ فیس بُک کے ذریعے اُس کا واستہ ایک جہادی گروپ سے پڑ گیا۔ اس گروپ کا نام تھا "ملت ابراہیم"۔ اشٹیفی اس گروپ کے آن لائن تشہیری مواد سے بے حد متاثر ہوئی اس میں بہت سے ویڈیوز بھی شامل تھی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ فیس بُک پر غیر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز پیغامات پوسٹ کرنے لگی۔ یہاں تک ہوگیا کہ وہ غیر مسلم باشندوں کو قتل کرنے کی اپیل فیس بُک پر کرنے لگی۔ اشٹیفی کہتی ہے، " آزاد سوچ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی، میری سوچ بہت محدود اور تنگ ہو کر رہ گئی۔ میں صرف اور صرف ایک سمت سوچ سکتی تھی۔ میرا سابقہ شوہر کیونکہ بہت ہی لبرل تھا اس لیے ہمارا رشتہ بھی میری سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس وجہ سے میں نے سوچا کہ مجھے اُسے چھوڑ کر افغانستان جانا چاہیے اور وہاں کسی مجاہد سے شادی کرنی چاہیے" ۔

بہرحال نوبت یہاں تک نہیں پہنچی تاہم اشٹیفی کے بہت سے پرانے تعلقات اور دوست احباب اُس سے چھوٹ گئے۔ سب سے زیادہ نقصان اُس کے اپنے والدین کے ساتھ تعلق کو پہنچا۔ شروع ہی سے وہ مذہب اسلام اور اشٹیفی کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے خلاف تھے۔ جوں جوں اشٹیفی میں انتہاپسندی آتی گئی ویسے ویسے اُنہوں نے بیٹی کے ساتھ بدسلوکی شروع کر دی۔ اشٹیفی کہتی ہے، " میرے واالدین نے مجھ پر حملہ کیا، اسلام اور قران کی بےحُرمتی کی اور مسلمانوں کو ُبرا بھلا کہا" ۔

آخر کار اشٹیفی نے سلفیوں کے چُنگل سے نکلنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اپنے والدین کے بغیر۔ اس اثناء میں کالعدم قرار دیے جانے والے گروپ "ملت ابراہیم" کا ایک سیمینار دو سال پہلے منعقد ہوا جس کے دوران اشٹیفی کے دل میں شکوک وشبہات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ ڈینس کسپرٹ نامی ایک مبلغ جو اب اسلامک اسٹیٹ آئی ایس کے معروف اراکین میں سے ایک ہے، اپنی گفتگو میں جنت کے فضائل بیان کرتے ہوئے ملحدوں سے خبر دار کر رہا تھا۔ اشٹیفی کہتی ہے، " اُس وقت مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں سیمینار سے کچھ علم و آگاہی حاصل کرنے کی امید کر رہی تھی۔ اس کے برعکس پورے وقت موت کی باتیں ہوتی رہیں اور یہ بھی کہ مجھے پورے چہرے کا نقاب کرنا چاہیے۔ میرا ہیڈ اسکارف " ملت ابراہیم" کی نقاب پوش خواتین کے لیے ناکافی تھا۔ انہوں نے مجھ پر اسلام کے بارے میں بہت کم معلومات رکھنے اور جاسوس ہونے جیسے الزامات عائد کیے اور فیس بُک پر میرے بارے میں جھوٹی کہانیاں گردش کرنے لگیں"۔

یہ مقام اشٹیفی کے لیے فیصلہ کُن تھا۔ اُس نے اس گروپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس گروپ سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے میں اشٹیفی کو چھ ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ اب وہ معتدل مسلمانوں کی ایک برادری کا حصہ ہے اور ان ہی کی مسجد جایا کرتی ہے۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کہ کہیں جاب کرنا چاہتی ہے۔

اشٹیفی کہتی ہے کہ سلفیوں کے اس گروپ میں داخل ہو کر اُسے اندازہ ہوا کہ اُن کی سوچ اور طور طریقے کہیں سے بھی اُس کے لیے موزوں نہیں ہیں نہ ہی یہ وہ اسلام ہے جس کی اُسے تلاش تھی۔