یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے سے متعلق امریکی تجویز غیر مقبول!
16 نومبر 2010اسرائیل کی جانب سے ویسٹ بینک میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے امریکہ نے تجویز کیا ہے کہ اس عمل کو اگلے نوے دنوں کے لئے عارضی طور پر مؤخر کردیا جائے۔ ایسے اشارے سامنے آرہے ہیں کہ مجوزہ امریکی پلان کو فلسطین اور باقی عرب دنیا کی جانب سے تعریف اور حمایت نہیں حاصل ہو سکے گی۔
اس امریکی پلان کے حوالے سے اسرائیل میں بھی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو امکانی طور پر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان کی کابینہ کے بعض وزرا اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کرنے کے لئے پوری تیاری میں ہیں۔ اس منصوبے کی منظوری اسرائیلی وزیراعظم کی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے دی جانا ابھی باقی ہے۔
عرب لیگ کے ایک افسر ہشام یوسف کے مطابق اسرائیلی بستیوں کی مشرقی یروشلم کو چھوڑ کر دیگر علاقوں میں تعمیر کو روکنے کی امریکی تجویز کو کسی طور فلسطین یا کسی اور عرب ملک سے حمایت حاصل نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ مشرقی یروشلم ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی موجودہ حکومت بضد ہے کہ یروشلم میں آباد کاری ان کا حق ہے۔
ہشام یوسف کے مطابق ان کا ادارہ عرب لیگ اب اس کا انتظار کر رہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے فلسطین کو کیا پیش کیا جاتا ہے اور اسی پر عرب لیگ اپنا نکتہ ء نظر واضح کرے گی۔ عرب لیگ امکاناً کسی بھی متبادل پیش کش کو مسترد کردے گی۔ عرب لیگ ابھی تک اس فلسطینی تجویز پر بھی کوئی بیان سامنے نہیں لا سکی ہے جس میں تجویز ہے کہ اقوام متحدہ فلسطین کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کر لے۔
امریکہ کی جانب سے مجوزہ پلان وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان طویل بات چیت کے بعد سامنے آیا تھا۔ اگر اسرائیل، امریکی تجویز قبول کر تے ہوئے تعمیراتی عمل کو عبوری طور پر منجمد کر دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں امریکہ نے اسرائیل کو اقوام متحدہ میں بھرپور حمایت کے علاوہ بیس جنگی طیاروں کی پیشکش کی ہے۔
امریکی تجویز پر اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ نائب وزیر اعظم موشے یالون کا کہنا ہے کہ یہ تجویز شہد کے شکنجے کی طرح ہے۔ وزیر دفاع ایہود باراک نے اس تجویز کی تعریف کی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف