’آئی ایم ملالہ‘: پاکستانی نجی اسکولوں کی طرف سے پابندی متنازعہ
12 نومبر 2013آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن نامی تنظیم نے گزشتہ ویک اینڈ پر ملک بھر کے نجی اسکولوں میں ملالہ یوسفزئی کی کتاب ‘آئی ایم ملالہ‘ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس تنطیم کے عہدیداروں کے مطابق ملالہ کی کتاب میں ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو بچوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کر سکتی ہیں۔ تنظیم کے عہدیداروں کے مطابق وہ نہیں چاہتے کہ کم سن طلباء ملالہ کے نقش قدم پر چلیں۔
’آئی ایم ملالہ‘ کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہو چکی ہے۔ تاہم ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے جس طرح پاکستانی معاشرے میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے اسی طرح اس طالبہ کی تصنیف پر بھی رائے منقسم ہے۔
ملالہ کی کتاب کو پہلے دن سے ہی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، دانشوروں، کالم نگاروں اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا۔ اس تنقید کی وجہ کتاب میں مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ناموں کے ساتھ احتراما استعمال ہونے والے کلمات کا استعمال نہ کیا جانا اور بانی پاکستان محمد علی جناح کو ’قائد اعظم‘ کے بجائے صرف جناح کہہ کر مخاطب کرنا بھی ہے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے ایک متنازعہ مصنف سلمان رشدی اور پاکستان میں مذہبی اقلیت قرار دی گئی قادیانی کمیونٹی کا ذکر بھی ان ناقدین کے لیے متنازعہ ہے۔ پہلے ملالہ کے رہائشی صوبے خیبر پختوانخوا کے دکانداروں نے اس کتب کی فروخت سے انکار کردیا تھا، اب پاکستان میں تمام نجی اسکولوں میں اس کتاب پر پابندی کے اعلان نے بعض حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
پاکستان کے معروف قانون دان سینیٹر ایس ایم ظفر کے صاحبزادے اور سپریم کورٹ کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ ملالہ کی کتاب پر پابندی پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
علی ظفر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ فیصلہ چیلنج ہو سکتا ہے کیونکہ آزادی اظہار کا معاملہ ہے اور بنیادی حق ہے۔ آپ اس کو روک نہیں سکتے کہ آپ اس کتاب کو لائبریری میں رکھیں، یا کوئی پڑھے نہ۔ یا تو اس میں آپ کسی ایسی بات کی نشاندہی کریں کہ جس کی وجہ سے اس کتاب کو نہیں رکھنا چاہتے۔ لیکن ایک سطحی بات کرنا بالکل غلط ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی کارکن اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں صنفی تعلیم کے شعبے سے منسلک فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ کسی شائع شدہ مواد پر پابندی لگانے کا فیصلہ صرف اور صرف حکومت کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ اسکولوں کی ایک ایسوسی ایشن کی جانب سے اس طرح کا اعلان قابل مذمت ہے۔
فرزانہ باری نے کہا، ’’اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کسی کتاب میں چھپنے والے مواد سے کسی کی مذہبی لحاظ سے دل آزاری ہوئی ہے اور اسے تشدد کے پھیلنے کا خدشہ ہو تو حکومت بھی سوچ سمجھ کر اس کتاب پر قانون کے مطاق پابندی لگا سکتی ہے۔‘‘
پاکستانی حکومت کے کسی بھی متعلقہ ادارے کی جانب سے اس معاملے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رفیق رجوانہ کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ملالہ‘ کسی بھی طور سوات سے تعلق رکھنے والی ایک معصوم طالبہ کی خود نوشت نہیں ہو سکتی بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے پیچھے کوئی اور ہی منصوبہ بندی کار فرما ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس کتاب میں کچھ چیزیں ایسی لکھی گئی ہیں جن پر یہاں پابندی لگانا ضروری سمجھا گیا تو یہ بہتر ہے کہ اس پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ انہوں نے ملالہ کو وہاں بلا کر جس انداز سے پذیرائی کی ہے، تو یہ ایک بہت بڑی منصوبہ بندی کا حصہ لگتا ہے کہ بچوں کے ذہنوں میں اس طرح کی سوچ پروان چڑھتی رہے کہ وہ لبرل بھی ہو جائیں اور اس معاشرے کے خلاف بھی ہو جائیں۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کتاب میں تمام خیالات ملالہ جیسی ذہین بچی ہی کے ہیں اور برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب انہیں ضبط تحریر میں لائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو کتاب کے کسی حصے سے اختلاف ہے تو وہ بھی اس کو لکھ یا بول کر اظہار کرے نہ کہ اس کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں۔