افغانستان سے مکمل انخلاء ڈھائی برس میں، اوباما کا منصوبہ
28 مئی 2014اس منصوبے میں باراک اوباما نے امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا نقشہ کھینچا ہے جس کے تحت 2016ء کے خاتمے تک افغانستان سے تمام امریکی فوجی نکل جائیں گے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اوباما نے منگل کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک خطاب میں کہا: ’’ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ افغانستان ایک بہترین مقام نہیں ہو گا اور اسے بہترین بنانا امریکا کی ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘
اس موقع پر انہوں نے امریکی افواج کے کردار کو بھی سراہا جنہیں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے ردِ عمل میں افغانستان میں تعینات کیا تھا۔ اس جنگ میں امریکا نے دہشت گرد گروہ القاعدہ کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا اور بالآخر اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو بھی ہلاک کر دیا۔
باراک اوباما کا مزید کہنا تھا: ’’ہم نے جو کام شروع کیا تھا، اب ہم اسے ختم کرنے کو ہیں۔‘‘
اوباما نے اتوار کو افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ بھی کیا تھا۔ وہان انہوں نے بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں سے ملاقات کی تھی۔ اُس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ رواں برس غیرملکی سکیورٹی فورسز کے انخلاء کے بعد تعینات کیے جانے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا۔
افغان صدر حامد کرزئی یہ کہتے ہوئے اس معاہدے پر دستخط سے انکار کر چکے ہیں یہ کام آئندہ صدر کرے گا۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی محدود تعداد کی تعیناتی افغان حکومت کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدے سے مشروط ہے۔ اس معاہدے کے تحت غیرملکی فورسز کے انخلاء کے بعد امریکی فوجیوں کی محدود تعداد افغانستان میں قیام کر سکتی ہے جن کا کام مقامی فورسز کی تربیت اور انسدادِ دہشت گردی کے مشن کو چلانا ہو گا۔
امریکا کی قیادت میں افغانستان میں نیٹو کے اکاون ہزار فوجی تعینات ہیں جن کا انخلاء رواں برس دسمبر تک طے ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طویل اور مہنگی جنگ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی جس کا مقصد ان باغیوں کو شکست دینا تھا جنہوں نے اقتدار سے اپنی بے دخلی کے بعد شدت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔
خبر ایجنسی اے پی کے مطابق امریکی حکام کو اُمید ہے کہ آئندہ ماہ صدارتی انتخابات کے دوسرے کے نتیجے میں صدر کے منصب تک پہنچنے والا امیدوار سکیورٹی معاہدے کو حتمی شکل دے دے گا۔