امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے اور ڈرون حملے
4 نومبر 2011امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں پیدا شدہ سردمہری کی وجہ سے امریکی خفیہ ادارے نے خاموشی کے ساتھ ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کے استعمال کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی کر دی ہے۔ اب ان حملوں کے حوالے سے زیادہ سخت پالیسی اپنا لی گئی ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ امکاناً ان حملوں کے موجودہ تعلقات کی نوعیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اعلیٰ حکام کی مناسبت سے رپورٹ کیا ہے کہ نئے اصولوں کی ضرورت پس پردہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور پینٹا گون کے جارحانہ رویے اور سفارتی حکام کے درمیان پاکستان کے بارے میں پائی جانے والی رسہ کشی بتائی گئی ہے۔ مبینہ ڈرون حملوں کی پالیسی کا ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں از سر نو جائزہ بھی لیا گیا۔ یہ امر اہم ہے کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے سینکڑوں انتہاپسند ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد بھی شامل ہیں۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ڈرون حملوں کی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سفارتی پیچیدگیوں کو کم سے کم کرنا ہے۔ جائزہ میٹنگ کے بعد نئی پالیسی کا ترازو اب امریکی وزارت خارجہ کی جانب جھک گیا ہے۔ میٹنگ میں یہ طے پایا کہ پاکستان کو مزید حملوں کے حوالے سے پیشگی اطلاع دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایسے وقت میں ڈرون حملے نہیں کیے جائیں گے جب پاکستانی حکومت کا انتہائی اہم رہنما یا نمائندہ امریکہ کے دورے پر ہو گا۔
نئی پالیسی کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ایک سینئر امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے پالیسی کی مناسبت سے حتمی فیصلے کا اختیار خفیہ ادارے سی آئی اے سے واپس نہیں لیا ہے بلکہ اب حملے کے لیے فیصلہ زیادہ افراد کی باہمی مشاورت سے ہو گا۔ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان ڈرون حملوں کی پالیسی دو پاکستانیوں کو ہلاک کرنے والے امریکی کانٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد سے زیر بحث ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف توقیر