اوباما کا یورپ میں امریکی فوجی موجودگی بڑھانے کا اعلان
3 جون 2014اپنے موجودہ دورہء یورپ کے آغاز پر صدر باراک اوباما آج ہی پولینڈ کے دارالحکومت پہنچے تھے۔ وارسا میں انہوں نے پولستانی صدر برونسلاو کوموروفسکی کے ساتھ ملاقات کی۔ بعد ازاں Belweder پیلس میں صدر کوموروفسکی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے کہا، ’’میں آج یہاں نیٹو میں امریکا کے یورپی اتحادیوں کی حمایت میں اضافے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کر رہا ہوں۔‘‘
باراک اوباما نے کہا کہ امریکی کانگریس کی حمایت سے اس حکمت عملی کے ذریعے یورپ میں امریکی عسکری ساز و سامان میں اضافہ کیا جائے گا۔ امریکی صدر نے کہا کہ واشنگٹن یورپ میں نہ صرف زیادہ عسکری ساز وسامان پہنچانا چاہتا ہے بلکہ خطے میں اپنے اضافی فوجی دستے تعینات کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔
صدر اوباما کے بقول اس مقصد کے لیے تیاریاں جاری ہیں، جن پر ایک بلین ڈالر تک کی اضافی لاگت آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس کی طرف سے نئے مالی وسائل کی منظوری کے بعد واشنگٹن براعظم یورپ میں اتحادی ملکوں کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں اور اتحادی دستوں کے تربیتی پروگراموں کے لیے زیادہ رقوم مہیا کر سکے گا۔
یوکرائن کا بحران
امریکی صدر کے موجودہ دورہء یورپ کا ایک پس منظر یوکرائن کا بحران اور یوکرائن میں روس کے جارحانہ اقدامات بھی ہیں، جن کی وجہ سے مشرقی یورپ میں کشیدگی اور امریکا کے اتحادی ملکوں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں امریکی حکام کے بقول صدر اوباما کی خواہش ہے کہ بحیرہء اسود اور بحیرہء بالٹک کے علاقوں میں تعینات نیٹو کے بحری دستوں میں امریکی شمولیت میں بھی اضافہ کر دیا جائے۔
باراک اوباما کل بدھ کے روز یوکرائن کے نومنتخب صدر پیترو پوروشینکو کے ساتھ پہلی مرتبہ بالمشافہ ملاقات بھی کریں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے آج وارسا میں کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ یوکرائن اور امریکا دونوں کے ہی روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔ تاہم ساتھ ہی امریکی صدر نے روس کو بالواسطہ طور پر تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن نے کسی بھی طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی پوری منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ نیٹو کے رکن ہر ملک کے تحفظ کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
ایسے میں باراک اوباما کے یہ الفاظ بہت معنی خیز تھے کہ امریکی منصوبے الماری میں پڑے کاغذ کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ واشنگٹن بوقت ضرورت ان پر عملدرآمد کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اوباما کے بقول امریکا روس کو دھمکیاں دینے میں نہیں بلکہ ماسکو کے ساتھ اچھے تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے۔
اومابا اپنا دورہء پولینڈ ایسے وقت پر کر رہے ہیں جب وارسا اپنے ہاں کمیونزم کے خاتمے کی 25 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ کل بدھ کو یوکرائن کے نو منتخب صدر پوروشینکو کے ساتھ ملاقات کے بعد جمعرات کو اوباما برسلز میں جی سیون کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ڈی ڈے کی تقریبات
برسلز میں جی سیون کے اجلاس کے بعد امریکی صدر فرانس جائیں گے جہاں وہ صدر فرانسوا اولانڈ سے ملیں گے اور پھر نارمنڈی میں دوسری عالمی جنگ کے دوران D-Day کی 70 سالہ تقریبات میں بھی حصہ لیں گے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے زیر قبضہ فرانس میں اتحادی فوجی دستے چھ جون 1944ء کو نارمنڈی کے ساحلوں پر اترے تھے۔
ڈی ڈے کی امسالہ یادگاری تقریبات میں شرکت کے لیے فرانسیسی صدر اولانڈ نے روسی ہم منصب پوٹن کو بھی دعوت دے رکھی ہے اور Normandy میں ممکنہ طور پر باراک اوباما کی ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات بھی ہو سکتی ہے۔