1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران : قوانین انتہائی سخت مگر منشیات کے استعمال میں اضافہ

عدنان اسحاق12 فروری 2015

ایران میں انتہائی سخت قوانین کے باوجود منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ حکام کے بقول ملک میں میتھ ایمفیٹامین کی پیداوار میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EaYy
ایرانی حکام کے مطابق ملک کی 80 ملین آبادی میں سے تقریباً سوا دو ملین افراد منشیات کے عادی ہیں
ایرانی حکام کے مطابق ملک کی 80 ملین آبادی میں سے تقریباً سوا دو ملین افراد منشیات کے عادی ہیںتصویر: Mehr

ایرانی حکام کے بقول ملک میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان سے دیگر ممالک کو اسمگل ہونے والی منشیات کا ایک راستہ ایران سے بھی ہو کر گزرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایرانی اسمگلرز طلبہ، دو دو ملازمتیں کرنے والوں اور دباؤ کے شکار افراد میں اسے فروخت کرتے ہوئے بے تحاشا منافع بھی کما رہے ہیں۔

سخت سزاؤں کے باوجود ایران میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے
سخت سزاؤں کے باوجود ایران میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہےتصویر: Mehr

ماہر نفسیات غزل تولوئین بتاتی ہیں کہ وہ منشیات کے نشے کے شکار درجنوں افراد کا علاج کر چکی ہیں:’’میرے زیادہ تر مریض ایسے نوجوان تھے، جو یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ کے باعث منشیات کے عادی بنے یا پھر وہ نوکری پیشہ افراد، جو اخراجات چلانے کے لیے ایک وقت میں مختلف اداروں میں کام کرتے تھے‘‘۔

ایران میں انسداد منشیات کے ادارے کے حکام کہتے ہیں کہ ملک کی 80 ملین آبادی میں سے تقریباً سوا دو ملین افراد منشیات کے عادی ہیں اور ان میں وہ 1.3 ملین بھی شامل ہیں، جن کا مختلف ہسپتالوں میں علاج جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ایک جانب منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو پھانسی دینے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف اس لت میں پڑنے والے افراد بھی بڑھ رہے ہیں۔

ایرانی اسمگلرز طلبہ، دو دو ملازمتیں کرنے والوں اور ذہنی دباؤ کے شکار افراد کو منشیات فروخت کرتے ہیں
ایرانی اسمگلرز طلبہ، دو دو ملازمتیں کرنے والوں اور ذہنی دباؤ کے شکار افراد کو منشیات فروخت کرتے ہیںتصویر: FARS

انسداد منشیات کے ادارے سے منسلک پرویز اشرف کہتے ہیں کہ جن لیبارٹریوں پر چھاپے مارے گئے ہیں، ان میں سے ہر دوسری میتھ ایمفیٹامین کی تیاری میں کسی حد تک ملوث تھی۔ ان کے بقول تاہم ایسے گھروں کا پتہ لگانا قدرے مشکل ہے، جہاں اس ڈرگ کو تیار کیا جاتا ہے۔

پرویز اشرف کا مزید کہنا تھا کہ پولیس گزشتہ ایک سال کے دوران اب تک اس قسم کی 416 لیبارٹریوں کو تباہ کر چکی ہے جبکہ 2013ء میں ایسی 350 لیبارٹریوں کو بند کیا گیا تھا۔

ایران کی وزارت صحت بھی اس لت سے نجات کے لیے قائم کیے گئے بحالی کلینکس کو مالی تعاون فراہم کرنے کے معاملے میں سست روی سے کام لیتی ہے جبکہ اس طرح کے نجی کلینکس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے مراکز کو بھی حکومت کی جانب سے جزوی امداد فراہم کی جاتی ہے اور ان میں سے کئی مراکز اُن افراد نے قائم کیے ہیں، جو کبھی منشیات کے عادی تھے۔