بان کی مون: ليبيا ميں جنگ فوراً بند کی جائے اور سياسی حل تلاش کيا جائے
18 اپریل 2011ليبيا ميں حکومت کی حامی فوج نے ملک کے تيسرے بڑے شہر مصراطہ پر قبضے کے ليے آج بھی دباؤ جاری رکھا۔ اُس نے آج اپنے حملے ميں راکٹوں اور توپخانے کا استعمال کيا۔ باغيوں کے ايک ترجمان نے کہا کہ کل مصراطہ پر قذافی فوج کی بمباری سے 17 افراد ہلاک ہوئے۔
مصراتہ، جو دارالحکومت طرابلس تک پہنچنے کا دروازہ سمجھا جاتا ہے، ليبيا کے مغربی حصے ميں باغيوں کا واحد مضبوط گڑھ ہے اور قذافی کی حامی فوج پچھلے سات ہفتوں سے اس پر قبضے کے لئے لڑرہی ہے۔ وہاں سے آنے والوں کا کہنا ہے کہ شہر ميں حالات انتہائی خراب ہيں اور اب تک سينکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہيں۔
قذافی کی فوج نے اجدابيہ پر بھی اپنے حملے جاری رکھے ہيں جہاں سے باغی تيل برآمد کرنے والی اہم بندرگاہ بريقہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہيں۔ايک باغی نے کہا کہ باغيوں کو جديد اسلحے کی ضرورت ہے۔ ليکن قذافی کی فوج پر نيٹو کے فضائی حملوں کے باوجود باغی، مشرقی ليبيا کے ساحلی شہروں ميں جنگ ميں پيش قدمی نہيں کر سکے ہيں۔
افغانستان ميں نيٹو افواج کو درپيش شديد مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے مغربی ممالک بار بار يہ اعلان کر رہے ہيں کہ وہ ليبيا ميں اپنی زمينی فوج نہيں بھيجيں گے۔ کل، برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے پھر کہا کہ ليبيا پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہيں ہے اور ليبيا کی سرزمين پر برطانوی فوجی بوٹس رکھے جانے کا کوئی سوال پيدا نہيں ہوتا۔ تاہم برطانيہ، فرانس اور امريکہ نے پچھلے ہفتے ايک بار پھر يہ کہا کہ وہ قذافی کی فوج پر بمباری اُس وقت تک جاری رکھيں گے جب تک کہ معمر قذافی اقتدار سے دستبردار نہيں ہوجاتے۔
نيٹو کے ايک افسر نے کہا کہ قذافی کی فوج پر بمباری کے ليے تقريباً نومزيد جيٹ طياروں کی ضرورت ہے۔ نيٹو، کوئی ايک ماہ قبل شروع ہونے والے اس آپريشن ميں تقريباً 200 طيارے استعمال کررہا ہے۔ کيونکہ قذافی فوج اپنی حکمت عملی تبديل کرتے ہوئے بکھر گئی ہے اور وہ اب ہلکے، پک اپ ٹرکس پر نصب اسلحہ استعمال کررہی ہے، اس لئے اب نيٹو کو اُس پر حملے کے لئے ايسے طيارے چاہئيں جو ليزر گائڈڈ، بالکل صحيح نشانہ لگانے والے بم پھينک سکيں۔
ليبيا حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہيم نے ان الزامات کو مسترد کر ديا کہ ليبيا مصراتہ ميں بين الاقوامی طور پر مذمت شدہ کلسٹر بم استعمال کررہا ہے۔ انہوں نے يہ بھی کہا: ’’ ہم ايسی تنظيموں پر برہم ہيں، جو ہماری ان اپيلوں کا کوئی جواب نہيں ديتيں کہ وہ طرابلس ميں آکر اپنے دفاتر قائم کريں اور وہاں سے مصراطہ جائيں اور موقعے پر جا کر خبريں ديں۔ اس کے بجائے وہ باغيوں کی ٹيلی فون کالز اور رپورٹوں پر کان دھرتے ہيں اور انہيں سچا سمجھتے ہيں۔ ہم ان غلط اطلاعات پر برہم ہيں۔‘‘
باغيوں کو تنخواہوں کی ادائيگی کے ليے پيٹرول فروخت کرنے کی ضرورت ہے، ليکن قذافی فوج کے حملوں کی وجہ سے انہيں تيل کی پيداوار روک دينا پڑی ہے۔ اگلے کئی ہفتوں تک اس کے دوبارہ شروع ہونے کا امکان نہيں ہے۔
اُدھر اقوام متحدہ کے سيکريٹری جنرل بان کی مون نے ليبيا ميں فوری جنگ بندی اور سياسی حل کی اپيل کی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: کشور مصطفیٰ