برازیل میں دور غلامی کے زخم آخر بھرتے کیوں نہیں
13 مئی 2018جنوبی امریکی ملک برازیل کی آبادی میں بہت بڑی تعداد ایسے شہریوں کی ہے، جن کا تعلق ماضی میں افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں کی مقامی طور پر پیدا ہونے والی نسلوں سے ہے۔ ان افریقی نژاد برازیلی باشندوں میں سے بہت سے آج بھی نامناسب سماجی رویوں، پرتشدد واقعات اور غلاموں کی طرح کی جبری مشقت کے اسی دائرے میں پھنسے ہوئے ہیں، جو ماضی میں برازیل میں کی جانے والی غلاموں کی تجارت ہی کی ایک تاریخی میراث ہے۔
آؤشوٹس کیمپ میں قید پولش لڑکی کی 'رنگین' تصویر نے ماضی کی تلخ یادوں کو تازہ کردیا
خواتین پر جنسی حملے، دنیا کے بدترین شہر یہ ہیں
برازیل میں غلاموں کے ساتھ ماضی میں جن شرمناک حد تک شدید نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا، وہ پہلے تو طویل عرصے تک پوشیدہ ہی رہے۔ ستمبر 1843ء میں جب برازیل کے شہنشاہ پیدرو دوئم کی اطالوی ملکہ برازیل پہنچنے والی تھیں، تو شہنشاہ نے ان کی آمد سے پہلے ہی ریو ڈی جنیرو کی ’غلاموں کی بندرگاہ‘ کو بھر دینے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ وہی بندرگاہ تھی، جہاں 1774ء سے لے کر 1831ء تک کے عرصے میں سمندری راستوں سے قریب سات لاکھ غلام لائے گئے تھے۔ یہ تعداد اس دور میں دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں کسی ایک جگہ پر لائے جانے والے غلاموں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
اس زمانے میں جو غلام برازیل لائے جانے کے دوران راستے ہی میں انتقال کر جاتے تھے، ان کی لاشیں ریو ڈی جنیرو کی قریبی پہاڑیوں پر گھریلو کوڑے کرکٹ اور مردہ گائیوں کے ساتھ ایسے پھینک دی جاتی تھیں کہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ یہ لاشیں بھی ایسے انسانوں کی ہوتی تھیں، جن کا مردہ حالت میں بھی احترام کیا جانا لازمی ہونا چاہیے تھا۔
برازیل کے جیل میں ہنگامہ آرائی، قیدیوں کے سرقلم کر دیے گئے
برازیلی سینیٹ نے صدر دلما روسیف کو فارغ کر دیا
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ریو ڈی جنیرو میں ایک مقامی خاندان نے 1996ء میں جب اپنے گھر کی تعمیر نو کے لیے بنیادیں کھودیں تو نیچے سے انہیں بہت سے ایسے غلاموں کی جسمانی باقیات ملی تھیں، جو دراصل ایک ایسے قبرستان کا حصہ تھیں، جسے ’نئے سیاہ فاموں کا قبرستان‘ کہا جاتا تھا۔ اس جگہ پر متعلقہ خاندان نے بعد ازاں ایک چھوٹی سی یادگار بھی بنا دی تھی۔ لیکن اب یہ یادگار بھی بند ہونے کو ہے۔ اس لیے کہ برازیلین حکومت نے اتنے برس گزر جانے کے باوجود کبھی اس یادگار کے لیے ایک پیسہ تک نہیں دیا۔
دوسری طرف ریو ڈی جنیرو کی والونگو نامی بندرگاہ کو یونیسکو نے ایک سال قبل عالمی ثقافتی میراث قرار دے دیا تھا۔ تب ریو کے اس علاقے سے جو اس بندرگاہ سے زیادہ دور نہیں اور ’چھوٹا افریقہ‘ کہلاتا ہے، بندرگاہ کے وہ حصے بھی دوبارہ دریافت کر لیے گئے تھے، جہاں افریقہ سے لائے جانے والے غلام خشکی پر اترتے تھے۔
برازیل پہلی بار فٹ بال کا اولمپک چیمپئن بن گیا
انسداد بدعنوانی کے وزیر ’بدعنوانی‘ کی وجہ سے ہی مستعفٰی
13 مئی 1888ء کو برازیل کی شہزادی امپیریل ازابیل نے وہ ’سنہری قانون‘ جاری کر دیا تھا، جس کے تحت ملک سے غلامی کو قانونی طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ آج اس تاریخی قانون کے اجراء کو ٹھیک 130 برس ہو گئے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ برازیل میں غلامی کا خاتمہ بغیر کسی بھی خونریز جنگ کے ہوا تھا۔ امریکا میں اس خانہ جنگی کے قطعی برعکس جو 1861ء سے لے کر 1865ء تک لڑی گئی تھی اور جس کا محور غلامی کے خاتمے کی کوششیں ہی تھیں۔ اسی طرح ہیٹی میں بھی 1794ء میں غلاموں کی ایک مسلح بغاوت دیکھنے میں آئی تھی۔ لیکن برازیل میں غلامی کا خاتمہ محض ایک ’سنہری قانون‘ سے ہی کر دیا گیا تھا۔
برازیل میں غلامی کو اس وقت ختم کیا گیا تھا، جب وہ اقتصادی نظام قائم رکھنا تقریباﹰ ناممکن ہو گیا تھا، جس کی بنیاد ہی انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کی روایت پر تھی۔ برازیل شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں کی ریاستوں میں سے وہ آخری ملک تھا، جس نے اپنے ہاں غلامی ختم کی تھی۔
’لڑکيوں کی کم عمری ميں شادی اور غلامی کا تعلق‘
چائلڈ لیبر آٹھ سال میں ختم کر دی جائے، آئی ایل او
تاریخی حوالے سے تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ افریقہ سے دور غلامی کی قریب ساڑھے تین صدیوں کے دوران بحر اوقیانوس پار کر کے جو غلام شمالی یا جنوبی امریکی معاشروں میں لائے گئے تھے، ان میں سے قریب نصف برازیل میں ہی خشکی تک پہنچے تھے۔ ان میں سے دو ملین کے قریب تو صرف ریو کے راستے برازیل میں داخل ہوئے تھے جبکہ باقی قریب چھ ملین برازیل کے دیگر ساحلی علاقوں پر اتارے گئے تھے۔
برازیل میں ماضی کے صدیوں پر محیط غلامی کے اس دور کے خاتمے کے سوا صدی سے زائد عرصے بعد بھی اس معاشرے میں دور غلامی کے زخم اس لیے ختم نہیں ہو سکے کہ برازیلین معاشرے نے کبھی اپنے اس ماضی کا سامنا کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ 1980ء کی دہائی میں برازیل میں کئی سال تک قیام کرنے والے اطالوی ماہر نفسیات کونتاردو کالیگاریس کے مطابق یہ سچ ہے کہ برازیل کے ہر شہری میں آج بھی ماضی کے ’آبادکار‘ اور ’استحصال کنندہ‘ کی شخصیت کا کچھ نہ کچھ حصہ پایا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہر وہ تعلق اور رشتہ، جس کا تعلق طاقت سے ہوتا ہے، آج بھی کسی نہ کسی حد تک اپنے اندر دور غلامی کے چند حصے لیے ہوئے ہوتا ہے۔
بھارت کے مزدور یا قدیمی مصر کا منظر
زبردستی کی شادی سمیت 40 ملین افراد غلامی کا شکار
برازیل کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پہلے اگر وہاں باقاعدہ غلامی پائی جاتی تھی تو آج غلامی اپنی جدید شکل میں موجود ہے، جہاں افریقی نژاد مقامی شہریوں کو جبر و تشدد، استحصال اور سماجی ناانصافیوں کا سامنا ہے۔ اسی لیے آج تک جنوبی امریکا کے اس ملک میں دور غلامی کے زخم بھر نہیں سکے۔