1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی مسلمانوں میں بڑھتی بنیاد پرستی کی وجوہات کیا؟

1 مئی 2018

برطانیہ میں جنوبی ایشیائی مسلم کمیونٹی کے نوجوانوں میں بنیاد پرستی کیوں بڑھ رہی ہے اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ ڈی ڈبلیو کا اس حوالے سے لندن میں مقیم اسکالر ڈاکٹر فرید پنجوانی کے ساتھ خصوصی انٹرویو۔

https://p.dw.com/p/2wxle
England Fahrzeug rast in Gruppe Muslime - mehrere Opfer
تصویر: Reuters/N. Hall

ڈی ڈبلیو: مسلم بنیاد پرستی برطانوی معاشرے کے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے، کئی مسلمان نوجوان شدت پسندی کے بیانیے کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ وہ کون سے محرکات ہیں جو جنوبی ایشیائی پس منظر رکھنے والے مسلمان نوجوانوں کو اس جانب دھکیل رہے ہیں؟

فرید پنجوانی: اس معاملے کی شدت کا تعین کرنا مشکل ہے کہ نوجوان برطانوی مسلمانوں میں بنیاد پرستی کس حد تک بڑھ رہی ہے۔ پھر ہمیں بنیاد پرستی کی بھی ایک واضح تعریف کی ضرورت ہے۔ کیا ہم ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو شدت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں، یا ان لوگوں کی جن کے نظریات میں شدت پسندی ہے؟ لیکن میں اس بات سے یقیناﹰ متفق ہوں کہ بحیثیت مجموعی یہ احساس ضرور پایا جاتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

نوجوانوں میں شدت پسندی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ شناخت کا مسئلہ، معاشرے کے مرکزی دھارے سے کٹ جانا، ساتھیوں کا دباؤ، مقصد کی تلاش، جدیدیت سے مایوسی اور مسلمانوں کی تاریخ کے کچھ خاص دیومالائی پہلوؤں پر یقین، یہ سبھی ایسے عوامل ہیں، جو اس مسئلے کی وجوہات کا حصہ ہیں۔

برطانیہ کا نیا وزیر داخلہ پاکستانی نژاد ساجد جاوید

ڈی ڈبلیو: برطانیہ میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے باشندے بڑی تعداد میں اور کئی دہائیوں سے آباد ہیں، پھر اس کمیونٹی میں مغربی ثقافت سے بیزاری کی وجوہات کیا ہیں؟

فرید پنجوانی: اکثرت اوقات یہ بیزاری مغربی ثقافت سے نہیں بلکہ اس میں پائے جانے والے کچھ عناصر سے متعلق ہوتی ہے۔ مغرب کی اسٹیبلشمنٹ، اس کی سیاست، خاص طور پر خارجہ پالیسی کے بارے میں تحفظات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ لیکن مغربی پالیسیوں کے خلاف غصہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی دوسرے خطوں، لاطینی امریکا، افریقہ حتٰی کہ یورپ میں بھی ایسے جذبات پائے جاتے ہیں۔

 

ڈی ڈبلیو: تو کیا مرکزی سماجی دھارے سے کٹ جانا ہی جنوبی ایشیائی نوجوانوں میں بنیاد پرستی کی وجہ ہے؟

فرید پنجوانی: اگر آپ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کا جائزہ لیں تو سماجی سطح پر کٹ کر رہ جانا ایک واضح اور واحد وجہ کے طور پر سامنے نہیں آتا۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں سات جولائی 2005 کے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث دہشت گرد اسی معاشرے میں بہت اچھی طرح رچے بسے ہوئے تھے۔ دوسری جانب ایسے شدت پسند بھی ہیں، جن کا بچپن مشکلات سے بھرا پڑا تھا اور وہ چھوٹے موٹے جرائم کے باعث جیلوں میں بھیج دیے گئے تھے اور وہیں وہ بنیاد پرستانہ ذہنیت کی جانب راغب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شدت پسندی کے بیانیے کی جانب مائل ہونے کی بھی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔

Dr. Farid Panjwani -  Leiter des Zentrums für Forschung und Bewertung in muslimischer Bildung in London
ڈاکٹر فرید پنجوانی یونیورسٹی کالج لندن کے تحقیقی ادارے CREME کے ڈائریکٹر ہیںتصویر: Privat

لیکن پھر بھی سماجی حوالےسے الگ تھلگ ہو کر رہ جانا بھی یقینی طور پر ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کئی مسلمان نوجوان قانونی طور پر باقاعدہ برطانوی شہری ہیں لیکن پھر بھی ان کا برطانوی معاشرے سے ثقافتی ربط ناپید ہے۔ ان میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اس معاشرے نے انہیں مایوس کیا ہے، اور وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق زندگی نہیں گزار پا رہے۔ ایسے لوگ بامقصد زندگی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں اور ان کے لیے نئے کارکن بھرتی کرنے والے افراد کو ایسے ہی لوگوں کی تلاش ہوتی ہے۔ تاہم ایسے احساسات بڑے پیمانے پر موجود ہیں اور انہیں ورکنگ کلاس کے افراد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مروجہ معاشی پالیسیوں اور سیاسی رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے لوگوں میں ایسے احساسات بڑھ رہے ہیں۔

 

ڈی ڈبلیو: اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ایک خاص طبقے میں پائی جانے والی شدت پسندی میں اضافے کی وجہ مغرب کی اپنی پالیسیاں ہیں، کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟

فرید پنجوانی: سرمایہ دارانہ معاشروں میں بسنے والے کئی افراد یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی، جمہوریت کام نہیں کر رہی، کارپوریٹ ادارے بہت طاقت ور ہو چکے ہیں۔ اس لیے بھی عام لوگوں میں احساس محرومی ہے اور ایسا دنیا بھر میں ہے۔ کچھ واقعات میں ایسے لوگ شدت پسند سیاسی جماعتوں اور مضبوط افراد کی حمایت کرتے ہیں تو کبھی بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں جمہوری نظام کا دوبارہ جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے معاشروں میں زیادہ کارآمد کردار ادا کرنے کے اہل بن سکیں۔

اگر ہم شدت پسند مسلمانوں اور دوسرے شدت پسند افراد کو ’پاگل‘ قرار دے کر انہیں ’تہذیب سے باہر پائے جانے والے انسان‘ قرار دیتے رہیں گے، تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ان لوگوں کی بھی اس خاص طرح کے رویوں کے پیچھے ان کی اپنی اپنی منطق اور اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ ہم ان کی وجوہات سے عدم اتفاق تو کر سکتے ہیں، ان کی حرکتوں کی مذمت بھی کر سکتے ہیں لیکن ہمیں انہیں اور ان کے تحفظات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ میں نے شدت پسندی کی جانب راغب کرنے کے لیے تیار کردہ ایسا مواد بھی دیکھ رکھا ہے، جس میں فلسطین، عراق اور کشمیر کے مسئلے کو لے کر مذہبی رنگ کے ساتھ سیاسی بیانیہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایسا بیانیہ ہے جس کے باعث نوجوان مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ’امت‘ کے لوگوں کی مدد کرنا ان کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اس طرز فکر کے تدارک کے لیے ہمیں بہت عرصے سے موجود سیاسی مسائل کے حل کے لیے اقدامات بھی کرنا ہوں گے اور بعض اقتصادی پالیسیوں کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ پھر اس کے بعد ایک متبادل بیانیے کی ترتیب و تشکیل بھی لازمی ہو گی۔

ش ح/ م م (انٹرویو: شامل شمس) 

’سعودی عرب جرمنی میں انتہاپسندی برآمد کر رہا ہے‘