بلوچستان: غیر رجسٹرڈ مہاجرین پر بڑا کریک ڈاؤن
10 نومبر 2023
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اب تک 2 لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ مہاجرین ملک سے واپس جاچکے ہیں ۔ ان مہاجرین میں قریب 80 فیصد کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے۔
دوسری جانب چمن میں پاک افغان سرحد پر نئے ایمیگیریشن قوانین کے خلاف احتجاجی دھرنا تاحال جاری ہے ۔ مظاہرین اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔
افغان امور کے سینئر تجزیہ کار، اختر زمان رئیسی کہتے ہیں پاکستان سے زبردستی افغانستان بھیجے جانے والے مہاجرین میں کثیر تعداد ایسے افغان مہاجرین کی بھی ہے جو کہ افغانستان میں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''دیکھیں میرے خیال میں یہ صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی جارہی ہے ۔ پاکستان سے جو لوگ واپس زبردستی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں ان میں بڑے پیمانے پر ایسے خاندان بھی شامل ہیں جو طالبان کے بد ترین سیاسی ناقدین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان افراد کو اس وقت بھی طالبان سے جانوں کو خطرہ لاحق تھا جس وقت وہ اقتدار میں نہیں تھے۔ موجودہ وقت میں اگر وہ افغانستان واپس آتے ہیں، تو انہیں اپنی آزادی اور سلامتی کے سنگین خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘
اختر زمان کا کہنا تھا کہہ سرحد عبور کرنے کے بعد متاثرہ افغان خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور لوگ انتہائی ناہموار علاقوں سے مشکل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا،''غیردستاویزی مہاجرین کو زبردستی ملک بھیجنے سے قبل بین الاقوامی قوانین پرعمل درامد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ دنیا بھر میں پناہ حاصل کرنے والے افراد کو انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ نگران حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے مہاجرین، خاص کر خواتین اور بچوں کے استحصال کے شکار ہونے کا خدشہ ہو۔‘‘
اختر زمان کا کہنا تھا کہ زمینی حقائق کے بغیر اٹھائے گئے اقدمات سے مثبت نتائج کی بجائے حالات میں مزید خرابی کا خدشہ ہے اسی لیےپاکستان کو اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
کوئٹہ میں افغان مہاجرین قانونی امداد کے منتظر
گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے کے لیے افغان پناہ گزینوں کی ایک کثیر تعداد نے کوئٹہ میں قائم افغان قونصل جنرل کے دفترسے بھی رجسٹریشن کے عمل میں مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔
افغان قونصل جنرل کے دفتر کے باہر روزانہ لوگوں کی کثیر تعداد لائنوں میں لگ کر افغان حکام سے قانونی امداد کی منتظر رہتی ہے لیکن اکثر لوگ کئی کئی گھنٹوں انتظار کے بعد مایوس ہوکر واپس لوٹ جاتے ہیں ۔
45 سالہ سید جان گزشتہ تین یوم سے مسلسل کوئٹہ کے ریڈ زون میں قائم افغان قونصل جنرل کے دفتر سے رابطے کی کوشش کر رہا ہے تاہم آب تک ان کی وہاں سے کوئی دادرسی نہیں ہوئی ہے ۔
ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''ہمیں پاکستانی قوانین سے کوئی آگاہی حاصل نہیں ۔ گزشتہ کئی یوم سے ہم یہاں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ میں اپنے بچوں کے ہمراہ قندھار سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں 5 سال قبل یہاں منتقل ہوا تھا ۔ جب سے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ہم سب یہاں بہت بے چین ہیں ۔ پاکستانی حکام ہمیں رجسٹر کرنے کی بجائے زبردستی ملک بدر کر رہے ہیں۔ ہم نے کوئٹہ میں تعینات افغان ناظم الامور سے رابطے کے لیے بہت کوشش کی ہے لیکن رش کی وجہ سے موقع نہیں مل رہا ہے۔‘‘
سید جان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کے ساتھ انتہائی غیرانسانی اور نازیبا رویہ اپنایا گیا ہےاور کئی مہاجر ایسے بھی ہیں جنہیں پی اور آر کارڈز کے باوجود گرفتار کرکے ملک بدر کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا،''میں کوئٹہ میں پشتون آباد کے علاقے میں مقیم ہوں ۔ یہاں ہزاروں افغان مہاجراس وقت پاکستانی فورسز کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔ مہاجرین کو بلاوجہ تنگ کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے اپنے ملک میں حالات سازگار ہوتے تو ہم یہاں کا رخ ہی کیوں کرتے؟ پاکستانی حکومت سے ہماری درخواست ہے کہ ملک بدری سے قبل ہماری مجبوریوں کا بھی کچھ احساس کرے۔‘‘
غیردستاویزی مہاجرین کی ملک بدری کی اصل وجوہات
بلوچستان میں محکمہ داخلہ کے حکام نے بتایا ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کی ملک واپسی کا سلسلہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں غیرمعمولی اضافے کے بعد تیز تر کر دیا گیا ہے ۔
کوئٹہ میں مقیم ایک سینئر سکیورٹی اہلکار ، احسن بلال نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردوں کی مبینہ دراندازی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،''پاکستان نے بین الاقوامی قوانین کی ہمیشہ پاسداری کی ہے ۔ اس وقت اور ملک میں داخلی سلامتی کی صورتحال کے باعث سخت فیصلے کیے جارہے ہیں ۔ افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف واضح ثبوتوں کے باجود طالبان کی عبوری حکومت کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے ۔ ایمیگریشن قوانین میں ترامیم ہمارا اندرونی معاملہ ہے اسی لیے اس میں کسی بیرونی فرد کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے ۔‘‘
احسن بلال کا کہنا تھا کہ قیام آمن کی بحالی پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور اس ضمن میں ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کے بقول ،'' گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات کی کڑیاں افغان سرزمین سے ملی ہیں ۔ امن دشمن عناصر ہمسایہ ملک کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں افغانستان کی نگران حکومت نے اب تک کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔‘‘
افغان مہاجرین کی زبردستی ملک واپسی اور ایمیگریشن پالیسی میں حالیہ ترامیم کے خلاف پاک افغان سرحدی شہر چمن میں جاری احتجاجی دھرنے کے شرکاء اورحکومت کے درمیان مذکرات تاحال ڈیڈلاک کا شکار ہیں ۔
پاکستانی حکام نے ریاستی معاملات میں مداخلت کے الزامات پر پشتون قوم پرست جماعتوں کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہیں ۔ گزشتہ روز ''گوادر حق دو‘‘ تحریک کے سربراہ ، مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کو بھی اسی دھرنے میں شرکت سے روک کر کوئٹہ میں نظربند کردیا گیا تھا۔
دو روز قبل پاکستان نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین محسن داوڑ کو بھی پولیس نے چمن احتجاجی دھرنے میں شرکت سے روک کر واپس اسلام آباد بھیج دیا تھا۔