بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنما کی سزائے عمر قید، موت کی سزا میں تبدیل
17 ستمبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز نے ڈھاکا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی سپرپم کورٹ نے عبدالقادر مولا کی طرف سے عمر قید کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو منگل کے دن مسترد کر دیا اور جنگی جرائم کے ٹریبونل کی طرف سے اپوزیشن کے اس رہنما کو فروری میں سنائی جانی والی سزائے عمر قید کو موت کی سزا میں بدل دیا۔ اس ٹریبیونل نے پانچ فروری کو بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے نائب سیکرٹری جنرل عبدالقادر مولا کو 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران قتل، آبروریزی اور تشدد ڈھانے کا مجرم قرار دیا تھا۔
چیف جسٹس مزمل حسین کی نگرانی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے مطابق مولا نے مارچ 1971ء میں اُس وقت ایک کنبے کے چار افراد کو ہلاک کرنے کا حکم جاری کیا تھا، جب پاکستانی فوج نے ڈھاکا میں کریک ڈاؤن شروع کر رکھا تھا۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل محب عالم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حتمی فیصلہ ہے‘ اور اب اس میں کسی ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ مولا کی فیملی اب صرف صدر سے معافی کی درخواست کر سکتی ہے۔
ادھر وکیل صفائی عبدالرزاق نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’سکتے‘ میں آ گئے ہیں۔ مولا اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ کیس سیاسی محرکات کی بنا پر گھڑا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی اہم اتحادی ہے۔
روئٹرز نے بتایا ہے کہ مولا کو سزا کو بدلنے پر منگل کے دن جماعت اسلامی کے متعدد کارکن سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے۔ اطلاعات کے مطابق ڈھاکا کے علاوہ چٹاگانگ اور خولنا میں بھی مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔ چٹا گانگ میں پانچ پولیس اہلکار اُس وقت زخمی ہوگئے، جب مظاہرین نے ایک پولیس کی ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا اور دیسی ساختہ بم پھینکے۔
بنگلہ دیش میں آئندہ پارلیمانی انتخابات اگلے برس کے اوائل میں ہونا طے ہیں۔ تاہم رواں برس کے آغاز سے ہی ملکی جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبیونل کی طرف سے جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں کو خلاف چلائے جانے والے مقدمات اور سزائیں سنانے پر متعدد مرتبہ مظاہرے منعقد کیے جا چکے ہیں۔ جنوری سے اب تک ایسے ہی خونریز مظاہروں کے نتیجے میں کم ازکم ایک سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جولائی میں ایک عدالت نے جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اب آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی ہے۔ اسی طرح اس اسلامی جماعت کے چھ رہنماؤں کو جنگ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیے جانے کے بعد انہیں سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ مولا کی پارٹی بنگلہ دیش کی آزادی کے خلاف تھی تاہم جماعت اسلامی اور اس کے رہنما ایسے تمام تر الزامات کو رد کرتے ہیں کہ وہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے۔
بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل میں اب تک عبدالقادر مولا کے علاوہ ابو الکلام آزاد، دلاور حسین سیدی، محمد قمر الزماں اور علی احسن محمد مجاہد کو سزائے موت دی جا چکی ہے جب کہ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ غلام اعظم کو نوے برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔ ابھی اس ٹریبیونل میں سات مقدمات زیر التوا ہیں۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کے علاوہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اس جنگی جرائم کی خصوصی عدالت کے شفاف ہونے پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔