بھارتی عدلیہ اپنی آزادی برقرار رکھ سکے گی؟
11 فروری 2023حالیہ ہفتوں میں بھارتی وزیر قانون کرن رجیجو اور نائب صدر جگدیپ دھنکھر سمیت متعدد سینیئر حکومتی شخصیات اور بی جے پی کے رہنما ملک میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔
ٹی وی چینلز نفرت انگیز مواد نشر کر رہے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ
بھارت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری تقریباﹰ ایک چوتھائی صدی پرانے طریقہ کار کے ذریعے ہوتی ہے، جس میں موجودہ ججز اور سرکاری اہلکار دونوں شامل ہوتے ہیں۔
'کتے اور بلیاں بہر حال انسان نہیں ہیں'، بھارتی عدالت
سینیئر ججوں کا ایک گروپ، جو کالجیم کے نام سے معروف ہے، امیدواروں کے نام وزارت قانون و انصاف کو پیش کرتا ہے اور اگر حکومت کی جانب سے سیکورٹی چیک کی کلیئرنس مل جائے، تو ان ناموں کو منظور کر لیا جاتا ہے۔
یاسین ملک نے قانونی مدد کی پیش کش ٹھکرا دی
یہ طریقہ کار اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومت ججوں کے انتخاب میں کم سے کم کردار ادا کرے اور صرف اختتامی مرحلے پر ہی وہ اس میں شامل ہوتی ہے۔
کشمیر کے وکیل اور وکلاء انجمنیں خاموش، کس سے منصفی چاہیں؟
اس طریقہ کار کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی آزادی اور غیر جانب داری کو یقینی بنانے کے لیے اس نظام کی ضرورت ہے، تاہم بعض ناقدین اسے مبہم اور غیر جوابدہ طریقہ کار قرار دیتے ہیں۔
'بھارت میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے میں تین سو سے زائد سال لگیں گے‘
حالیہ ہفتوں میں حکومت کے سینیئر ارکان کی جانب سے عدلیہ کو بار بار کھل کر نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ بحث دوبارہ شدت سے شروع ہو گئی ہے کہ آیا ججوں کی تقرری کے عمل میں منتخب نمائندوں کو زیادہ حق ملنا چاہیے؟
مودی حکومت بڑے کردار کی تلاش میں؟
قانونی ماہرین اور ملک کے سابق ججوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ججوں کے انتخاب میں اپنے لیے بڑے کردار کی تلاش میں ہے۔
اس امر میں اختلاف رائے نہ صرف اس طریقہ کار کی شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ حکومت کی مختلف شاخوں کے درمیان طاقت کے نازک توازن کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔
ایک سرکردہ وکیل اور آئینی امور کے اسکالر گوتم بھاٹیہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے عدالت پر جس قدر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں جو شدت پائی جاتی ہے، اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا ہے، ’’اب ہر ہفتے ہی عدالت پر ایگزیکٹیو کے حملے ہوتے ہیں۔ یہ حملے نہ صرف عدالتی تقرریوں کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں، بلکہ عدالت عظمیٰ کے اس معروف ترین فیصلے پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ پارلیمان کی اہلیت سے بالا تر ہے کہ وہ اس میں ترمیم کر سکے۔‘‘
ان کا کہنا ہے، ’’وسیع پیمانے پر اس کو آئین کی ہر حال میں بالا دستی اور مطلق العنانیت کے خلاف ایک اہم رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔‘‘
موجودہ طریقہ کار پر تنقید
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مودی حکومت پر ججوں کے انتخاب میں زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا گیا ہو۔ سن 2015 میں حکومت ’نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن‘ کے نام سے ایک ایکٹ لائی تھی، جس میں ججوں کی تقرریوں میں ایگزیکٹیو کو بڑا کردار دیا گیا تھا۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے اس قانون کو مسترد کر دیا تھا۔
بھارت میں ججوں کی تقرری کا مسئلہ عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشمکش کا حصہ رہا ہے۔
سن 1993 تک ججوں کے انتخاب میں حکومت کو برتری حاصل کی تھی، لیکن پھر عدالت عظمیٰ نے کالجیم نظام قائم کیا اور کہا کہ جہاں تک ججوں کے انتخاب کی بات ہے، تو انتظامیہ عدلیہ کے مشورے کی پابند ہونا چاہیے۔
تاہم صرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان ہی موجودہ نظام پر تنقید نہیں کرتے۔ سینیئر ایڈووکیٹ ریبیکا میمن جان نے ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں کہا، ’’موجودہ کالجیم کا نظام مبہم ہے اور اس کے کام کاج میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور کئی دہائیوں سے اس پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔‘‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ متبادل اور بھی زیادہ خطرناک چیلنجز سامنے لاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’حکومت عدالتوں میں اپنے موقف کی حمایت کے لیے ان اعلیٰ آئینی عہدوں پر ایسے لوگ تعینات کرنا چاہتی ہے، جو اس کے کہنے پر ہاں کہیں۔ اس سے ہر قیمت پر بچنے کی ضرور ت ہے اور عدلیہ کی آزادی صرف عدلیہ کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے جسے عمومی طور پر حکومتی مداخلت کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کی ایک سینیئر فیلو پامیلا فلیپوس بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’عدلیہ اور کالجیم کے خلاف حالیہ جھگڑے کا سلسلہ ایک ایسی عدلیہ کی تلاش کے لیے ہے، جو ماتحت ہو، ایک ایسی عدلیہ جو حکومت کی منشا کے مطابق چلنے کے لیے زیادہ تیار ہو۔‘‘
وہ کہتی ہیں، ’’تشویش یہ ہے کہ ایک اکثریتی حکومت، جیسا کہ اس وقت نئی دہلی میں برسراقتدار ہے، اپنے نظریات کے حامل افراد کی تقرریاں کر سکتی ہے اور وہ عدلیہ کی آزادی سے کافی حد تک سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔‘‘
ججوں کی کمی اور زیر التوا مقدمات
ہائی کورٹ کی ایک سابق جج انجانا پرکاش کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹیو اور عدلیہ کے درمیان اختلافات کے پیش نظر عدالتی تقرری کا عمل بھی ایک انتہائی مشکل کام ہو گیا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بالآخر حکومت تقرری اور تبادلوں کے لیے ججوں کے ناموں کو کلیئر تو کر دیتی ہے۔ تاہم حکومت صرف اسی اختیار سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ ان کے انتخاب پر بھی کنٹرول چاہتی ہے، جس پر کالجیم کی بالا دستی ہے۔‘‘
اس تنازعے نے بھارتی عدالتوں میں ججوں کی کمی اور زیر التوا مقدمات کے مسئلے کو مزید پیچیدہ اور خراب کر دیا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ فی الوقت بھارتی ہائی کورٹس میں ہر 10 میں سے چار ججوں کی سیٹیں خالی ہیں اور سپریم کورٹ میں 70 ہزار سے بھی زیادہ جبکہ ہائی کورٹس میں 5.9 ملین سے زیادہ مقدمات التوا میں ہیں۔
بھارتی وزیر قانون کرن رجیجو نے دسمبر میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ برس 331 خالی عہدوں کے مقابلے میں ہائی کورٹس میں صرف 165 نئے ججوں کی تقرری کی گئی۔
حال ہی میں حکومت نے سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تقرری کو بھی کلیئر کر دیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ کالجیم کا نظام ابھی باقی ہے۔ پرکاش کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ اب اقتدار کی لڑائی میں بدل گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا، ’’جن افراد کو منتخب کیا گيا اور جن کی تقرری کی سفارش کی گئی، وہ جج بننے کے قابل نہیں ہیں۔ اگر انہوں نے اعتراض کیا، تو یہ دوسری وجوہات کی بنا پر ہے لیکن یقینی طور پر میرٹ نہیں ہے۔ میں حیران ہوں کہ کوئی بھی اس پر بات نہیں کر رہا۔‘‘
ص ز / م م (مرلی کرشنن)