1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی مسلمانوں کے سامنے اب یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ

جاوید اختر، نئی دہلی
20 جون 2023

یونیفارم سول کوڈ بی جے پی کا ہندوؤں سے کیے گئے چار انتخابی وعدوں میں سے آخری ہے۔ گوکہ اس کے نفاذ سے ہندو اور دیگر فرقے بھی متاثر ہوں گے لیکن بھارتی مسلمان اسے ایک نئی مصیبت کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4SoVd
Indien Opferfest Eid al Adha
تصویر: picture-alliance/abaca/I. Khan

گزشتہ ہفتے جب بھارتی لاء کمیشن نے عوام اور مذہبی جماعتوں سے یونیفارم سول کوڈ کے متعلق اپنی آراء ایک ماہ کے اندر پیش کرنے کا اعلان شائع کرایا تو اسی کے ساتھ اپوزیشن سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی متعدد تنظیموں کی جانب سے موافقت اور مخالفت میں ردعمل کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے اپنے انتخابی منشور میں چار اہم وعدے کیے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان میں سے تین یعنی جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے، اجودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے اور شہریت ترمیمی قانون کا وعدہ پورا کردیا۔ اس نے تین طلاق کو بھی غیر قانونی اور قابل سزا جرم قرار دے دیا ہے۔ اب ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا آخری اہم وعد پورا کرنا رہ گیا ہے۔

مسلمان کیا سوچتے ہیں؟

لاء کمیشن کے نوٹس پر مسلم رہنماوں اور جماعتوں نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر مسلم جماعتوں اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ بے وقت کی آواز ہے اور اس سے ملک کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہوگا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ایک حلقے نے غیر ضروری بیانات دینے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

بھارت: ایک ساتھ تين طلاقیں، کابینہ نے سزا کی منظوری دے دی

بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نو منتخب صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "یونیفارم سول کوڈ ملک کے لیے غیر ضروری، ناقابل عمل اور انتہائی نقصان دہ" ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس غیر ضروری کام میں ملک کے وسائل کو ضیاع کرکے سماج میں انتشار نہ پیدا کرے۔

مودی حکومت اسلام یا مسیحیت اپنانے پر ریزرویشن کے خلاف کیوں؟

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا پرسنل لا قرآن و سنت سے ماخوذ ہے جس میں مسلمان کسی تبدیلی کا مجاز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں صرف مسلمان ہی اپنے پرسنل لا پر عمل نہیں کرتے بلکہ دیگر مذہبی جماعتوں کے بھی اپنے اپنے پرسنل لا ہیں حتیٰ کہ خود ہندو بھی مختلف علاقوں میں یکسر مخالف پرسنل لا پر عمل کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جنوبی بھارت میں ہندوؤں میں ماموں کی اپنی بھانجی کے ساتھ شادی انتہائی متبرک سمجھی جاتی ہے جس کا تصور بھی شمالی بھارت کے ہندوؤں کے لیے محال ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی عقیدے کی بنیاد پرننگے رہنے والے ہندو ناگا باباوں پر یہ قانون نافذ ہوسکے گا؟
سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی عقیدے کی بنیاد پرننگے رہنے والے ہندو ناگا باباوں پر یہ قانون نافذ ہوسکے گا؟تصویر: picture-alliance/dpa

مسلمان جذباتی ردعمل سے گریز کریں

نئی دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامیات کے پروفیسر ایمریٹس اخترالواسع نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کی چڑھ بنادی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ اس چڑھ کو چھوڑ دیں کیونکہ یکساں سول کوڈ بھارت کے کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام مذاہب سے ہے۔"

پروفیسر اخترالواسع نے بتایا کہ سن 2018 میں لا کمیشن نے یونیفارم سول کوڈ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت میں تنوع کا جشن منایا جانا چاہئے اور اس کا احترام ہونا چاہئے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ فی الوقت بھارت کے لیے غیر ضروری اور غیر مطلوب ہے۔"

اہانت پیغمبر کا معاملہ: بھارت کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں

اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان، جو اہلسنت والجماعت کے معروف عالم امام احمد رضا خان بریلوی مرحوم کے پڑپوتے ہیں،  کا کہنا تھا کہ دراصل حکومت یکساں سول کوڈ جیسے حساس مسئلے پر مسلمانوں کو مشتعل کرا کے اپنا سیاسی ایجنڈا پورا کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خود ہندو قوم میں بہت سے پرسنل لا ہیں جو یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد ختم ہو جائیں گے لہذا مسلمانوں کو اس معاملے پر کچھ بولنے سے گریز کرنا چاہئے۔

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیربی جے پی کا ہندووں سے کیے گئے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیربی جے پی کا ہندووں سے کیے گئے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھاتصویر: Goutam Hore/DW

کیا حکومت ہندووں کے پرسنل لا کو چیلنج کرسکتی ہے؟

بیشتر مسلم رہنماوں کا کہنا تھا کہ حکومت ہندوؤں کے پرسنل لا میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی جرأت نہیں کرے گی۔ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے قومی صدر سید محمد اشرف کچھوچھوی نے سوال کیا کہ "کیا مذہبی عقیدے کی بنیاد پرننگے رہنے والے جین مت کے ماننے والے سادھووؤں اور ہندو ناگا باباوں پر یہ قانون نافذ ہو سکے گا؟ کیا سکھ مت کے ماننے والوں کو بال رکھنے کے حق سے محروم کردیا جائے گا؟ کیا غیر منقسم ہندو خاندان کو حاصل ٹیکس چھوٹ بند کردی جائے گی؟"

'ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں'، بھارتی دانشور

بھارت میں قبائلیوں کے بھی اپنے پرسنل لا ہیں۔ گوکہ آر ایس ایس جیسی ہندو قوم پرست تنظیمیں قبائلیوں کو بھی ہندوؤں کا حصہ قرار دینے کی مسلسل کوشش کررہی ہیں تاہم قبائلی اب بھی ہندووں کی طرح دیوتاوں کی پوجا کرنے کے بجائے فطرت کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ اپنی میت کو جلانے کے بجائے دفن کرتے ہیں۔

قبائلی کثرت ازدواج پر بھی عمل کرتے ہیں۔ قبائلی عورتوں اور مردوں دونوں میں ایک سے زائد شادیاں عام ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی حکومت سیاسی لحاظ سے اہمیت کے حامل اس معاملے پر قدم آگے بڑھا سکے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی اور دیگر حالات کے مدنظر مودی حکومت نے مسئلے کا اندازہ لگانے کے لیے پانی میں پتھر پھینکا ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی اور دیگر حالات کے مدنظر مودی حکومت نے مسئلے کا اندازہ لگانے کے لیے پانی میں پتھر پھینکا ہےتصویر: Reuters/A. Abidi

مودی حکومت کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں ہو گا

بھارتی آئین میں یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے صرف ایک جملہ درج ہے۔ آئین کی دفعہ 44 میں کہا گیا ہے،"مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقے میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی اور دیگر حالات کے مدنظر مودی حکومت خود بھی یونیفارم سول کوڈ کو فوری طورپر نافذ کرنا نہیں چاہے گی اور اس نے مسئلے کا اندازہ لگانے کے لیے پانی میں پتھر پھینکا ہے۔

دراصل آئندہ ستمبر میں بھارت میں جی ٹوئنٹی گروپ کے سربراہان مملکت کا اجلاس ہو گا، اس سے پہلے بھی کئی میٹینگیں ہوں گی ایسے میں بی جے پی یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ کوئی متنازع مسئلہ پیدا ہو اور حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے بھارت اور مودی کی امیج خراب ہو۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور بی جے پی کرناٹک میں شکست کے بعد پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی ہے۔

بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت میں ایک بھی مسلمان نہیں ہوگا

مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ قبائلی اکثریت والی ریاستیں ہیں۔ گیارہ کروڑ قبائلیوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد نے سن 2016 میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے اپنے صدیوں پرانے رسوم و رواج کوتحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

لا کمیشن کوئی آئینی ادارہ نہیں ہے، اس کی حیثیت صرف مشاورتی ادارے کی ہے۔ جس کے مشورے تسلیم کرنا حکومت کے لیے ضروری نہیں۔

آزاد بھارت میں سن 1955میں قائم لاکمیشن اب تک 277 تجاویز پیش کرچکا ہے لیکن ان میں سے گنتی کے چند ایک ہی حکومت نے منظور کیے۔ تاہم لا کمیشن کی موجودہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی کی پسند کے مطابق مشورے دے گا اور حکومت اسے پارلیمان میں پیش کردے گی۔

وزیر قانون ارجن رام میگھوال کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بل منظور کرانا مشکل نہیں ہو گا ہم لا کمیشن کی تجویز کا انتظار کررہے ہیں۔