بیشتر پاکستانی آئندہ انتخابات سے لاتعلق کیوں؟
27 دسمبر 2023پاکستان میں مالیاتی سرگرمیوں کے مرکز کراچی میں انتخابات سے قبل کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آرہی ، باوجود اس کے کہ اب یہ تقریباً یقینی بات ہے کہاٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات مزید مؤخر نہیں ہوں گے۔
آئندہ عام انتخابات سے متعلق عوام میں عدم دلچسپی کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف جاری کریک ڈاون سب سے اہم ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس کا انتخابی نشان 'بلا‘ استعمال کرنے سے روک دیا تھا، جو کرکٹ میں عمران خان کے کامیاب دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ بہرحال اسی ہفتے منگل کے روز پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس حکم کو معطل کر دیا اور اس پارٹی کو اس کا انتخابی نشان واپس مل گیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان تین حلقوں سے الیکشن لڑیں گے
عمران خان اور ان کے بہت سے ساتھی کئی مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اس بات کا امکان نہیں کہ الیکشن سے قبل انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ ان اقدامات نے آنے والے انتخابات کو کافی متنازع بنا دیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان تقریباً دو سال سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ، آسمان کو چھوتی مہنگائی کی وجہ سے عوام بنیادی اشیائے خور و نوش خریدنے اور بجلی کے بل ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ چونکہ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں پریشان ہیں، اس لیے انہیں اس بات کی فکر بہت کم ہے کہ اگلی حکومت کون بنائے گا۔
افغانستان کی سرحد سے ملحق بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی کے مسائل بھی ملکی فوجی قیادت کے لیے بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
کیا پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ممکن ہوسکیں گے؟
مزید برآں فوجی جرنیل عمران خان کے حامیوں کی جانب سے نو مئی کو ہونے والے مظاہروں سے اب بھی پریشان ہیں، جب کچھ فسادیوں نے فوجی تنصیبات اور رہائشی علاقوں پر حملے کر دیے تھے۔
ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ یہ بات زیادہ توجہ طلب نہیں ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی پارٹی سب سے زیادہ سیٹیں جیتے گی بلکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن ایک جدید ریاست کے طور پر پاکستان کی بقاکا معاملہ بن گیا ہے۔
عمران خان: ایک اہم فیکٹر
آئندہ انتخابات میں ساری توجہ صرف ایک شخص پر مرکوز ہے،کرکٹر سے سیاست داں بنے عمران خان پر۔ وہ اس وقت بدعنوانی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنے کے الزامات میں جیل میں ہیں۔
مقبولیت والوں کی قبولیت نہیں اور قبولیت والوں کے پاس مقبولیت نہیں
گزشتہ برس پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹادیے جانے کے بعد عمران خان نے اپنی برطرفی کے لیے امریکہ اور بعض فوجی جرنیلوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے، جو رائے عامہ کے کئی جائزوں کے مطابق ملک کے مقبول ترین سیاست دان ہیں، ایک موقع پر معاملے کو اتنا آگے بڑھا دیا تھا کہ ریاستی اداروں میں باہم تصادم کی صورت اور عوام کے کچھ حلقوں اور فوج کے درمیان براہ راست محاذ آرائی کی حالت بھی پیدا ہوگئی تھی۔ ایسے حالات کا ملک نے ماضی میں کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔
بعض لوگوں کے مطابق عمران خان کی 'انتشار پیدا کرنے کی سیاست‘ اقتدار پر فوجی جرنیلوں کی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن بعض دیگر لوگ اسے ملک کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں، جو پہلے ہی معاشی بحران کے دہانے پر ہے اور جسے بہت سے سیاسی جغرافیائی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوالات
اسلام آباد میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار عدنان رحمت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''کسی بھی مقبول رہنما کی طرف سے پولرائزیشن کی سیاست کسی بھی ملک میں نقصان دہ ہوتی ہے، کیونکہ یہ اہم اصلاحات اور ترقی کی طرف توجہ دینے سے روکتی ہے۔‘‘
عدنان رحمت کا کہنا تھا، ''افسوس کی بات ہے کہ عمران خان نفرت اور اشتعال انگیز بیان بازی کی سیاست میں سبقت لے جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے سیاسی اور سماجی طورپر تکثیری ملک میں سیاسی پولرائزیشن دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ضروری اقدامات اور تعاون کو روک دیتی ہے۔‘‘
عدنان رحمت کا خیال ہے کہ عمران خان اپنی ''نفرت کی سیاست‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں اور اب کوئی بھی ان کے حقوق کا دفاع نہیں کرنا چاہتا۔
معاشی دلدل
پاکستان میں طویل سیاسی عدم استحکام کا ممکنہ طور پر سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہوا ہے۔ حالانکہ عمران خان کے دور اقتدار (2018-2022) کے دوران بھی معاشی اشاریے زیادہ مثبت نہیں تھے، تاہم انہیں اقتدار سے برطرف کرنے کے بعد معیشت اوندھے منہ گر پڑی تھی۔
لینسیٹ نامی جریدے نے ستمبر میں لکھا تھا، ''معاشی مشکلات سے سب سے زیادہ پریشانی کم آمدنی والوں کو ہوئی ہے۔ بہت سے لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیے جانے اور آمدنی میں کمی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نتیجتاً انہیں اشیائے خور و نوش کی مقدار اور معیارمیں کمی کرنا پڑی ہے، لوگ نقل و حمل کے کم مہنگے متبادل تلاش کرنے لگے ہیں اور اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘‘
اس جریدے نے مزید لکھا تھا، ''مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام نیز فوجی مداخلتو ں نے معاشی بحران کو مزید خراب کر دیا ہے۔‘‘
پاکستان: سیاسی جماعتیں کمزور اور اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور
ڈی ڈبلیو نے دیکھا کہ روٹی کی دکانوں اور سپر مارکیٹوں کے باہر لمبی قطاریں ہیں اور کراچی میں فٹ پاتھوں پر بے گھر لوگ سوئے ہوئے تھے۔
ستمبر میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ پاکستان میں افراط زر کی شرح 31.4 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
یہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہونے والی حکومت ہی ان معاشی پریشانیوں کا ازالہ کر سکتی ہے۔ لیکن کراچی کے علاقے طارق روڈ پر چائے کی دکان چلانے والے اختر محمدی کہتے ہیں کہ پہلے ملک کو صحیح راستے پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اختر محمدی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں (آئندہ الیکشن میں) ضرور ووٹ دوں گا۔ میں مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دوں گا، کیونکہ معیشت اسی وقت ٹھیک ہو سکتی ہے جب پاکستان سیاسی طور پر مستحکم ہو۔‘‘
آگے کیا؟
کیا عمران خان تمام رکاوٹوں کے باوجود دوبارہ واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟
سیاسی تجزیہ کار عدنان رحمت کا خیال ہے، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انتخابات منصفانہ طریقے پر ہوئے، تو پی ٹی آئی بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں بیٹھے ارباب اختیار اسے برابری کے مقابلے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ ووٹروں کی خواہش نہیں بلکہ مقننہ میں سیٹوں کی تعداد سے طے ہوتا ہے کہ اقتدار پر کون فائز ہو گا اور اس لحاظ سے تو معاملہ پی ٹی آئی کے خلاف ہی نظر آتا ہے۔‘‘
پاکستانی سیاست میں اب تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرتبہ ووٹنگ کم ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے کم ہو۔
عدنان رحمت کے مطابق، ''ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ آیا عمران خان کے حامی الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آتے ہیں یا نہیں۔‘‘
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے؟
ج ا/ م م (شامل شمس، کراچی)