1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیایشیا

تحریک طالبان پاکستان کے حملے میں متعدد پولیس اہلکار ہلاک

16 نومبر 2022

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں بدھ کے روز پولیس کے ایک قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا، جس میں چھ اہلکار ہلاک ہو گئے۔ حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز پر اب تک کا یہ مہلک ترین حملہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4Jae0
Hakimullah Mehsud Taliban Tehrik e Taliban
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ  کے شہر لکی مروت میں بدھ کے روز ہونے والے حملے میں اب تک چھ پولیس اہلکاروں کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔ ادھر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نامی ممنوعہ شدت پسند تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سوات میں طالبان کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن کی تیاریاں؟

ایک مقامی پولیس اہلکار محمد امتیاز نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے ناہموار پہاڑوں میں انہیں تلاش کیا جا رہا ہے۔

 پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کو ملک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔

پاکستان ممنوعہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کیوں کر رہا ہے؟

 ایک اور بیان میں صوبے کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے اسے انتہائی افسوسناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔'' انہوں نے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔

 بعدازاں صوبے کی پولیس کے دفتر تعلقات عامہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ریاستی انسپکٹر جنرل (آئی جی)، معظم جاہ انصاری نے لکی مروت میں ''ٹارگٹ کلنگ'' کا سخت نوٹس لیا ہے۔

بیان کے مطابق آئی جی نے کہا کہ شر پسندوں کی ''بزدلانہ کارروائیاں '' پولیس کے حوصلے کو پست نہیں کر سکتیں اور متعلقہ حکام کو ملزمان کو فوری  طور پرگرفتار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

Pakistan Taliban-Führer Mullah Fazlullah
​​​​گزشتہ برس افغان طالبان کے ہاتھوں کابل پر قبضے کرنے بعد سے پاکستانی طالبان بھی افغان سرحد پر اپنے سابقہ مضبوط علاقوں میں دوبارہ منظم ہونے کی کوششیں کرتے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Ttp

تشدد میں اضافہ

صوبہ خیبر پختونخواہ میں حالیہ مہینوں میں تشدد کی لہر میں شدت دیکھی گئی ہے جبکہ مقامی شہری امن کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلسل مظاہرے بھی کرتے رہے ہیں۔

ان سرحدی علاقوں میں طالبان کے دوبارہ منظم ہونے کی اطلاعات پر مقامی عوام میں تشویش پائی جاتی ہے، اسی لیے مظاہروں کے دوران حکومت اور فوج کی عدم فعالیت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی تھی۔

تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ برسوں میں تشدد کے دوران اب تک تقریبا ً80,000 افراد کو ہلاک کیا ہے۔ افغانستان کے طالبان حکام کی ثالثی میں اسلام آباد کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کے خاتمے کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی طالبان اپنے اڈوں پر دوبارہ اپنی گرفت مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستانی فوج نے سن 2008 اور 2014 کے درمیان اپنی متعدد کارروائیوں کے بعد ان عسکریت پسندوں کو افغانستان کی جانب دھکیل دیا تھا۔ تاہم گزشتہ برس افغان طالبان کے ہاتھوں کابل پر قبضے کرنے بعد سے پاکستانی طالبان بھی افغان سرحد پر اپنے سابقہ مضبوط علاقوں میں دوبارہ منظم ہونے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔  

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے)

’پاکستانی طالبان کی واپسی خطرناک ہو گی‘