ترکی میں پاک افغان اعلیٰ قیادت کے درمیان اعتماد سازی کی کوشش
1 نومبر 2011پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے سے تناؤ محسوس کیا جا رہا ہے۔ کابل حکومت کو شکایت ہے کہ پاکستانی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی اُن عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو افغانستان میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ اسی پس منظر میں ترکی میں افغانستان اور پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کی ملاقات بھی طے ہے۔
امریکہ کی جانب سے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی پاکستان پر ’ڈبل گیم‘ کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ اسلام آباد حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ پاکستان صدر آصف زرداری نے استنبول میں صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔
استنبول میں پاکستانی صدر آصف زرداری، افغان صدر حامد کرزئی اور ترک صدر عبد اللہ گل کی ملاقات سے قبل ایک اعلیٰ ترک عہدیدار نے بتایا، ’’ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستانی اور افغان حکام دونوں ہی کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی خواہش ہے، کیونکہ دونوں جانتے ہیں کہ موجودہ روش سے دونوں کو فائدہ نہیں ہورہا۔‘‘
افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں جاری عسکریت پسند مخالف جنگی محاذ 2014ء کو ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد وہاں رہ جانے والے بین الاقوامی فوجی دستے ممکنہ طور پر بطور معاون فورس یا تربیتی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ ایسے میں طالبان اور عسکریت پسندوں کے فعال ترین سمجھے جانے والے حقانی نیٹ ورک کو ہتھیار چھوڑ کر امن عمل میں شریک کرنے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ترکی میں سہ فریقی سربراہی سمٹ کے بعد بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوگی، جس میں افغانستان کے 14 پڑوسی ممالک کے بشمول امریکی، جرمن، فرانسیسی اور 10 دیگر اتحادی ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شریک ہوں گے۔
اس کانفرنس کا میزبان ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں مسلم اکثریتی آبادی والا واحد ملک ہے اور اس کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ترک حکومتی ذرائع نے امید ظاہر کی کہ استنبول میں افغان اور پاکستانی قیادت دو طرفہ تعاون اور اعتماد سازی سے متعلق کا ایک معاہدہ کرلیں گے۔ پاکستان صدر کے ہمراہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر دفاعی چوہدری احمد مختار اور وزیر داخلہ رحمان ملک بھی استنبول میں موجود ہیں۔ پاکستانی سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق سہ فریقی ورکنگ گروپ تشکیل دیے جا چکے ہیں جو مختلف شعبوں میں پیشرفت کا جائزہ لیں گے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: شامل شمس