جرمن چانسلر میرکل دو روزہ دورے پر ترکی میں
29 مارچ 2010جرمن سربراہ حکومت اپنے دو روزہ دورے پر آج پیر کو جب انقرہ پہنچیں تو ان کا پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سرکاری استقبال کیا گیا۔ پھر انگیلا میرکل جدید ترکی کےبانی کمال اتا ترک کے مزار پر گئیں جہاں انہوں نے پھولوں کی چادر چڑھائی۔
بعدازاں انہیں اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ایک ملاقات میں تفصیلی مذاکرات کرنا تھے۔ انقرہ میں آج ترک وزیر اعظم کے ساتھ اپنی بات چیت کے بعد جرمن چانسلر نے کہا: ’’ظاہر ہے کہ ہم نے رکنیت سے متعلق مذاکرات کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ ہم نے کہا کہ جو معاہدے موجود ہیں۔ ان کا احترام کیا جائے گا اور موجودہ مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔‘‘
برلن اور انقرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمن چانسلر کے اس دورے کے پس منظر میں سب سے اہم بات وہ دوطرفہ اختلافات ہیں جو ترکی کے لئے یورپی یونین کی ممکنہ رکنیت سے متعلق دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین پائے جاتے ہیں۔
انگیلا میرکل، جنہوں نے اپنا گزشتہ دورہ ترکی اکتوبر 2006 میں کیا تھا، آج ہی انقرہ میں وزیر اعظم ایردوآن کے علاوہ ترک صدر عبداللہ گُل سے بھی مل رہی ہیں، جس کے بعد وہ استنبول روانہ ہوجائیں گی۔
ترکی، جس کے جرمنی کے ساتھ گہرے اقتصادی رابطے ہیں، گزشتہ کافی عرصے سے یورپی یونین کے ساتھ اپنی رکنیت کے بارے میں مذاکرات میں مصروف ہے۔ تاہم برسلز ابھی تک ترکی کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت دینے پر تیار نہیں ہے۔ کئی بڑے رکن ملک اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور بار بار ترک حکومت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے بعد بھی یہ بات یقینی نہیں ہو گی کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کر لیا جائےگا۔
خود جرمن چانسلر میرکل بھی یہ کہتی ہیں کہ وہ ترکی کے لئے یونین کی مکمل رکنیت کی بجائے ترجیحی شراکت داری کی حامی ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر وزیر اعظم ایردوآن کی حکومت جرمنی کو قائل کرنا چاہتی ہے کہ ترکی یونین میں اپنے لئے کسی ترجیحی پارٹنرشپ کا نہیں بلکہ پوری رکنیت کا خواہش مند ہے۔
اس دورے کے دوران جرمنی سے چانسلر میرکل کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی اقتصادی وفد بھی ترکی گیا ہے۔ اس لئے کہ جرمنی اور ترکی دونوں ہی آپس کے تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں۔
ترکی یورپی یونین سے باہر جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ملک ہے اور جرمنی میں آباد ترک نسل کے باشندوں کی تعداد بھی تین ملین کے قریب ہے، جو ترکی سے باہر ترک باشندوں کی کسی ایک ملک میں سب سے بڑی آبادی ہے۔ جرمنی میں ترک نسل کے تقریبا پانچ لاکھ افراد ایسے بھی جو اب تک جرمن شہریت اختیار کر چکے ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک