جرمن ہتھیاروں کی فروخت اور خفیہ معاہدے
13 ستمبر 2011برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن سر جان اسٹینلے کے مطابق وہ یقیناﹰ یہ جانتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے حال ہی میں ہتھیاروں کے کس سودے کی منظوری دی تھی۔ یہ وہ اعزاز ہے، جس سے اُن کے جرمن ساتھی محروم ہیں۔ جرمن پارلیمان میں ایک سماعت میں حصہ لیتے ہوئے اسٹینلے کا کہنا تھا، ’’ہر سہ ماہی کے بعد ہمیں حکومت کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوتی ہے، جسے پڑھنے کے بعد ہم انتہائی تنقیدی سوالات بھی کرتے ہیں۔‘‘
سر جان اسٹینلے اسلحہ برآمد کرنے اور اس کے جائزے کے لیے بنائی گئی برطانوی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ انہیں اس معاملے میں شفافیت کے فقدان کے بارے میں ایسی کوئی شکایت نہیں ہے، جیسی جرمن اراکین پارلیمان کو ہے۔ جرمن ارکان پارلیمان ستمبر 2011 میں ابھی اسلحے کی برآمدات سے متعلق سن دو ہزار دس کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔
سر جان اسٹینلے کے مطابق عرب ملکوں میں احتجاجی تحریکوں کے آغاز سے لے کر اب تک وہاں اسلحہ برآمد کرنے کے 157 لائسنس واپس لیے جا چکے ہیں تاکہ ہتھیاروں کے ممکنہ غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ جرمن پارلیمان کی سماعت میں اسٹینلے کی شرکت کا مقصد معلومات کا تبادلہ تھا۔
سویڈن، برطانیہ یا پھر ہالینڈ کی نسبت جرمنی میں ارکان پارلیمان اس امر سے آگاہ نہیں ہیں کہ حالیہ مہینوں میں وفاقی حکومت نے اسلحہ برآمد کرنے کے کن معاہدوں کی اجازت دی ہے۔
جولائی میں جرمن اخبارات نے بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے 200 جرمن جنگی ٹینکوں کی سعودی عرب کو فروخت کی منظوری دے دی ہے۔ اس متنازعہ سودے کے بعد سعودی حکومت انہی ٹینکوں کو بحرین میں استعمال کر سکتی تھی۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے فوری بعد جرمن اراکین پارلیمان کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔ برآمدی پرمٹ پر اکیلے فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنے والی وفاقی حکومت نے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تاہم ابھی تک نہ تو اس کی تردید اور نہ ہی تصدیق سامنے آئی ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کو خفیہ رکھنے سے مشروط کیا گیا ہے۔
جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت سے وابستہ جان فان آکن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو ٹینکوں کی فروخت کے معاہدے کو خفیہ رکھنے کی بات مضحکہ خیز ہے۔ ان کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا پتہ ہے۔ فان آکن کا مطالبہ ہے کہ اس طرح کے بڑے فیصلوں سے پہلے پارلیمان کو آگاہ کیا جانا چاہیے تاکہ بحران زدہ علاقوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے ملکوں کو اسلحے کی فراہمی روکی جا سکے۔
اسٹاک ہولم میں انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ SIPRI میں آرمز کنٹرول کی ماہر زبیلے باؤر کا کہنا ہے کہ کسی بھی فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے پارلیمان کے پاس معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو جب پارلیمان اور عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے تو وہ کسی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتی ہے۔
یورپ میں گزشتہ کئی برسوں سے اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت میں شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے اور کئی ملکوں میں حکومت کو قانونی طور پر ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق پارلیمان کو آگاہ کرنے کا پابند بنایا جا چکا ہے۔ اب جرمنی میں بھی اسی طرح کا کوئی قانون متعارف کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
رپورٹ: نینا ویرک ہوئیزر / امتیاز احمد
ادارت: امجد علی