جنوبی ایشیائی باشندوں میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ، نئی تحقیق
8 دسمبر 2024’’دی لانسیٹ‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں 828 ملین بالغ افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 1990 سے 2022 کے دوران دنیا بھر 630 ملین افراد اس مرض کا شکار ہوئے۔
برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی میں ماہر وبائیات مونیزہ صدیقی نے بتایا کہ، ’’عالمی سطح پر ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار افراد کی مجموعی تعداد میں 33 فیصد سے زائد جنوبی ایشیائی افراد شامل ہیں، جن میں مقامی افراد اور مہاجرین دونوں شامل ہیں۔‘‘
بھارت میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے کیسز کی تعداد 212 ملین تک ہو سکتی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ تعداد 36 ملین تک متوقع ہے، جن میں سے بیشتر افراد کو مناسب علاج نہیں مل پاتا۔
مونیزہ صدیقی نے مزید بتایا کہ جنوبی ایشیائی باشندوں کے خون میں شوگر کی سطح نسبتاً بلند رہتی ہے، جس کے نتیجے میں دل، گردے اور جگر کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جنوبی ایشیائی باشندوں میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ کیوں؟
ٹائپ ون ذیابیطس انسانی جسم میں موجود بیٹا سیلز پر حملہ کرتی ہے جس سے جسم میں انسولین کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کے سبب شوگر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس کے کل کیسز میں سے تقریباً 96 فیصد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے کیسز ہوتے ہیں۔ غیر صحت مندانہ خوراک، موٹاپے اور بڑھتی عمر کے ساتھ اس مرض کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جینیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کی کلینیکل سائنسدان الکا کنایا نے ڈی ڈبلیو کے بذریعہ ای میل بتایا کہ جیناتی عوامل کے باعث جنوبی ایشیائی افراد میں ذیابیطس کی بیماری کا آغاز تیزی سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص پری ڈائبیٹک (جب بلڈ شوگر بہت زیادہ ہو لیکن ذیابیطس کے رینج میں نہیں) ہو، تو وہ جلدی ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔ نتیجتاﹰ ایسے افراد کے پاس اس مرض کے شروع ہونے سے پہلے اسے روکنے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔
ذیابیطس کا باعث بننے والے جینیاتی عوامل
سائنسی جریدے ’’نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، جینیاتی عوامل کی وجہ سے جنوبی ایشیائی افراد یورپی ممالک کے افراد کے مقابلے میں جلد ذیابیطس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیائی افراد میں کچھ خاص جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے چربی جسم کے ان حصوں میں جمع ہو جاتی ہے جو ان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، چربی جسم کے ان حصوں میں جمع ہونے کے بجائے جو محفوظ مانے جاتے ہیں، جیسے رانوں یا بازوؤں کے گرد، جگر اور اندرونی اعضا کے قریب جمع ہوتی ہے۔
ان عوامل کے باعث ان افراد کے لیے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی دوا بھی بہت زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتی۔
طرز زندگی میں تبدیلی سے بچاو ممکن
طبی ماہرین کے مطابق، اگرچہ جینیاتی خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، لیکن طرز زندگی میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے فضا میں موجود پی ایم 2.5 کے آلودہ ذرات بھی ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس کے نصف کیسز میں موٹاپا ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ، زیادہ مقدار میں پراسیسڈ گوشت کا استعمال، جس میں نمک، چکنائی اور دیگر مضر اجزاء شامل ہوں، بھی ذیابیطس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔
باقاعدگی سے ورزش اور زیادہ میٹھے سے پرہیز ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ح ف / ص ز (ڈی ڈبلیو)