جولائی: کراچی میں دو سو افراد تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے
1 اگست 2011پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ جولائی میں شہر میں تقریباﹰ 200 افراد ہلاک ہوئے اور یہ تقریباﹰ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز مہینہ رہا۔
تشدد کی تازہ لہر سے متاثر ہونے والے بیشتر علاقوں میں پشتون اور مہاجر قومیتوں کے افراد آباد ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور مالیاتی مرکز کراچی میں سیاسی جماعتیں مختلف علاقوں پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے برسوں سے اسٹریٹ کرائم اور نسلی گروپوں کا سہارا لے رہی ہیں۔ ایک اعلٰی پولیس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ تشدد کا محرک سیاسی اور نسلی ہے، لہٰذا اس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے امن اقدامات شروع کیے گئے ہیں تاہم ان کے خیال میں متعلقہ افراد کو بحالی امن کی کوششوں میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دیگر حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کی حالیہ لہر کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تشدد کا آغاز جولائی کے اوائل میں اورنگی ٹاؤن سے ہوا تھا جب تین دن میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ رینجرز کی طرف سے اورنگی ٹاؤن کا کنٹرول سنبھالنے کے باوجود تشدد کا سلسلہ شہر کے دیگر حصوں تک پھیل گیا۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2011 کی پہلی ششماہی میں کراچی میں 1,138 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 490 سیاسی، نسلی اور فرقہ وارانہ تشدد کی بھینٹ چڑھے۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کراچی میں تشدد کے خاتمے کے لیے سیاسی حل پر زور دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ قبضہ مافیہ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر نے شہر میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تاہم ہلاکت اور تباہی کے اس کھیل میں مرکزی کردار طاقتور سیاسی گروپوں کا ہے اور امن کی کنجی ان کے ہاتھوں میں ہے۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ امن قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’امن عمل جاری ہے اور تمام متعلقہ فریقوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ بعض عناصر کراچی میں امن نہیں چاہتے مگر ہمیں امید ہے کہ شہر میں جلد ہی امن لوٹ آئے گا۔‘‘
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: افسر اعوان