حریف فلسطینی گروپوں کے مابین مفاہمتی معاہدے پر دستخط
14 اکتوبر 2022جمعرات کے روز حماس، فتح اور دیگر 12 فلسطینی گروپ ایک برس کے اندر صدارتی اور قانون ساز کونسل کے لیے انتخابات کرانے پر متفق ہو گئے۔ اس معاہدے پر فتح کے سینیئر رہنما عزام الاحمد، حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ اور پاپولر فرنٹ فاردی لبریشن آف فلسطین کے سکریٹری جنرل طلال ناجی نے دستخط کیے۔
الجزائرکی میزبانی میں ہونے والے اس مذاکرات کے لیے صدرعبدالمجید تبون کا شکریہ ادا کرنے سے قبل اسماعیل ہانیہ نے کہا، "یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کے ذریعہ ہمیں یروشلم نظر آرہا ہے۔"
فتح کے رہنما عزام الاحمد کا کہنا تھا، "ہمیں اس وقت صدر عبدالمجید تبون کی سرپرستی میں اس معاہدے پر دستخط کرنے اور اس (سیاسی) اختلاف اور فلسطینی جسم میں داخل ہو جانے والے کینسر سے نجات حاصل کرنے پر فخر ہے۔" انہوں نے کہا، "فتح گروپ کی جانب سے ہم اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے والے پہلی تنظیم بننے کا عہد کرتے ہیں۔"فلسطین کا مستقبل، الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی کوششیں
فلسطین کا مستقبل، الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی کوششیں
حماس اور فتح کے مابین مصالحتی معاہدہ طے پاگیا
جن دیگر اہم فلسطینی شخصیات کو دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا ان میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سینیئر رہنما احمد مجدلانی، فلسطین نیشنل انیشی ایٹیو کے سکریٹری جنرل مصطفی برغوتی اور فلسطین پیپلز پارٹی کے سکریٹری جنرل بسام الصالحی شامل تھے۔
معاہدے میں کیا باتیں کہی گئی ہیں
الجزائز میں اگلے ماہ ہونے والے عرب سربراہی اجلاس سے قبل فلسطین کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک اور غزہ پٹی پر حکومت کرنے والے گروہ حماس سمیت 14 فلسطینی گروپوں کے درمیان دو روز تک چلنے والی بات چیت کے بعد اس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
حماس کے ترجمان حازم قاسم کے مطابق اس معاہدے میں متحدہ حکومت کی تشکیل کی کوئی بات شامل نہیں ہے البتہ اس میں پی ایل او کے ڈھانچے کو تیار کرنے، اس کی قومی کونسل اور قانون ساز کونسل کی تشکیل اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے متعلق شقیں شامل ہیں۔
تاہم فلسطینی علاقوں میں یہ شبہات بہر حال برقرار ہیں کہ چونکہ انتخابات کے سابقہ وعدے پورے نہیں ہوئے تھے تو کیا اب ٹھوس تبدیلیاں ہوسکیں گی۔
معاہدے کے تحت فریقین نے ایک برس کے اندر"یروشلم سمیت تمام فلسطینی علاقوں میں قانون ساز کونسل اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے عمل کو تیز کرنے" کا وعدہ کیا ہے۔
اس معاہدے میں پی ایل او کو بھی تسلیم کیا گیا ہے، جس کے سربراہ محمود عباس کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ امیدیں وابستہ
خیال رہے کہ سن 2007 کے بعد سے سیاسی اختلافات نے ایک ریاست کی فلسطینیوں کی امنگوں کو کمزور کر دیا ہے اور صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو روکے رکھا ہے۔ آخری مرتبہ سن 2005 اور 2006 میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔
غزہ پٹی کے انتخابا ت میں حماس کی کامیابی کے بعد صورت حال اور بھی زیادہ مشکل ہوگئی۔ اسرائیل کے ساتھ امن کی مخالفت کرنے والے اس گروپ نے سن 2007 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا جب کہ محمود عباس کی مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کو مقبوضہ مغربی کنارے پر کنٹرول حاصل ہے۔
اس کے بعد سے ہی غزہ اسرائیلی مصری ناکہ بندی کی زد میں ہے اور اسے اب تک کم از کم تین مرتبہ بڑے اسرائیلی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مصری ثالثی سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی
برطانیہ نے حماس پر پابندی عائد کر دی
حماس کے ترجمان قاسم نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہمیں اس مرتبہ کافی امیدیں ہیں بالخصوص ہمارے افراد پر اسرائیل کے تازہ ترین حملوں کی وجہ سے۔"
الفتح اور حماس اس سے قبل مذاکرات کے کئی دور میں اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرچکے ہیں اور ماضی میں عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا تھا، لیکن ابھی تک کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں، لوگ الجزائر میں ہونے والے مذاکرات کو اس امید کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ تبدیلی کا باعث بنے گا۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)