حلب میں بدترین تباہی، اقوام متحدہ کے مندوب شام میں
20 نومبر 2016شامی صدر بشار الاسد کی فورسز کی جانب سے شام کے مشرق میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر شدیدی ترین بم باری کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا۔ اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے اس تباہی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ شامی حکومت کی جانب سے اس تازہ کارروائی کا آغاز منگل کے روز کیا گیا تھا۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ان حملوں میں کم از کم چوّن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس طرح اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد ایک سو تین ہو چکی ہے، جس میں کم از کم سترہ بچے بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں عام شہریوں کی بتائی گئی ہیں۔
آبزرویٹری کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں حکومتی فورسز اور مسلح جنگ جوؤں کے درمیان زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ شامی افواج کی کوشش ہے کہ وہ بستان البشہ اور شیخ سعید کے علاقوں پر قبضہ کر سکیں۔
اس صورت حال کے پیش نظر شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹیفان دے مستورا دمشق پہنچ گئے ہیں جہاں وہ شامی حکومت کے اہل کاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر شامی حکومت کی تازہ کارروائیاں اس لیے بھی مذمت کا باعث بن رہی ہیں کہ ان میں ہسپتالوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکا کی سلامتی کی مشیر کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ’’طبی انفراسٹرکچر اور امدادی تنظیموں پر حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’شامی حکومت اور اسے کے اتحادی، بالخصوص روس، شام میں ہونے والی اس تباہی کے ذمے دار ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ شام میں حکومت مخالف باغیوں کے خلاف شامی فوجی کارروائی کو روسی پشت پناہی حاصل ہے۔ گزشتہ ماہ چار ہفتوں تک جاری شامی اور روسی بم باری کے نتیجے میں کم از کو دو ہزار شہری زخمی ہوئے تھے۔
حلب اس جنگ کے باعث تقریباً تباہ ہو چکا ہے، اور باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں کم از کم دو لاکھ پچاس ہزار شہری محصور ہیں، تاہم اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق اب تک کسی مربوط اور منظم طریقے سے ان شہریوں کو حلب سے منتقل کیے جانے کا آغاز نہیں ہوا ہے۔
حلب شام کا سب سے بڑا شہر اور خانہ جنگی کے آغاز سے قبل مشرق وسطیٰ کے اس ملک کا اقتصادی مرکز تھا۔ حلب میں شامی صدر اسد کے خلاف بغاوت سب سے آخر میں شروع ہوئی تھی۔ عمومی طور پر یہ شہر اسد حکومت کا حامی تھا۔ اس شہر پر قبضے کا مطلب شامی جنگ میں کسی بھی فریق کے لیے فیصلہ کن جیت ہو گی۔ تاہم اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ترکی کی سرحد ہے۔ اس وقت حلب شام اور ترکی کے درمیان ’پراکسی جنگ‘ کا بھی مرکز بن چکا ہے۔
حلب سمیت شام بھر میں جاری لڑائی میں اب اتنے زیادہ فریق شامل ہو چکے ہیں کہ یہ تعین کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اسد حکومت اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں سے شدت پسند اسلامی تنظیمیں داعش اور القاعدہ بھی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سبھی کے لیے حلب کی حیثیت کلیدی ہے۔ اسی کلیدی حیثیت کی حلب کو جان لیوا قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔