ریمنڈ ڈیوس سفارتی استثٰنی ثابت نہ کرسکے
4 مارچ 2011یہ بات ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کے وکیل اسد منظور بٹ نے ذرائع ابلاغ کو بتائی ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اسد منظور بٹ کے حوالے سے بتایا کہ عدالت نے اس امریکی شہری پر دہرے قتل کی فرد جرم عائد کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ بٹ کے بقول امکان ہے کہ 8 مارچ کو ہونی والی پیشی میں ریمنڈ ڈیوس پر فرد جرم عائد کردی جائے گی۔
امریکی حکومت کا اصرار ہے کہ ریمنڈ ڈیوس، جو کہ سابق فوجی بھی ہیں، اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے کے ملازم ہیں۔ واشنگٹن کی جانب سے ڈیوس کے لیے سفارتی استثنیٰ کے مطالبے کو پاکستان میں کئی حلقے مسترد کرتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس 27 جنوری سے پنجاب کی صوبائی پولیس کی تحویل میں ہیں۔ انہوں نے صوبائی دارالحکومت لاہور کی ایک سڑک پر فائرنگ کرکے دو پاکستانی شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔ ریمنڈ کے بقول ایسا انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کیا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کی اگلی پیشی کے ایک ہفتے بعد یعنی 14 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ میں اس امریکی شہری کے سفارتی استثٰنی سے متلعق مقدمے کی سماعت شیڈیول ہے۔ جمعرات کی پیشی کے موقع پر ریمنڈ ڈیوس کی پہلی بار ایک وکیل نے پیروی کی۔ اس سے قبل اس امریکی شہری کا دعویٰ تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی سفارتخانے نے ریمنڈ کے لیے سینیئر وکلاء سے رابطہ کیا ہے۔
سفارتخانے کے ترجمان البرٹو روڈریگیز کے بقول یہ معاملہ دو طرفہ تعلقات کے لیے انتہائی اہم ہے اور اسے سلجھانے کے لیے اسلام آباد حکومت کے ساتھ مل کر کوششیں کی جارہی ہیں۔
امریکی اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کے مطابق ریمنڈ ڈیوس سفارتی عملے کے رکن نہیں بلکہ لاہور میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے۔ ان اخبارات کے مطابق ریمنڈ ڈیوس اس سے قبل سابقہ بلیک واٹر جس کا موجود نام زی ہے، بھی کام کرچکے ہیں۔ امریکی حکومت نے عراق اور افغانستان میں اپنے عملے کی سلامتی کے لیے نجی سکیورٹی فرم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ یہ کمپنی دونوں ممالک میں قانون سے بالاتر ہوکر کارروائیاں کرنے کے حوالے سے کافی بدنام رہی ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ