1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے موضوع پر یورپ منقسم

شامل شمس13 ستمبر 2013

یورپ شام میں جاری خانہ جنگی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ یورپ کے تمام ممالک نے اپنے دروازے شامی پناہ گزینوں کے لیے کھول دیے ہوں۔ کیا یورپی یونین کو ان ممالک پر دباؤ ڈالنا چاہیے؟

https://p.dw.com/p/19hCz
(AP Photo/Bilal Hussein)
تصویر: picture-alliance/AP

شام میں دو برس سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے بیس لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد شام کے پڑوسی ممالک ترکی، لبنان، اردن اور عراق میں پناہ لے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک خصوصی پروگرام کے تحت یورپی ممالک دس ہزار شامیوں کو اپنے ہاں پناہ دے رہے ہیں، تاہم یہ بھی وہ شام کے پڑوسی ممالک اور اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین، یو این ایچ سی آر کی بارہا اپیلوں کے بعد کر رہے ہیں۔

پانچ ہزار کے لگ بھگ شامی مہاجرین کو جرمنی پناہ دے گا۔ یہ ان پندرہ ہزار شامیوں کے علاوہ ہے جو کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے چکے ہیں۔ سویڈن نے تمام یورپی ممالک کی نسبت زیادہ سخاوت سے کام لیا ہے اور وہ ان شامی مہاجرین کو، جو اس کے ہاں پناہ لے چکے ہیں، مستقل رہائش دے رہا ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ یورپ شامی مہاجرین کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔ یورپی ممالک شامی مہاجرین کی مالی امداد کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کی نمائندہ ریاستیں اب تک شام کے ان پڑوسی ممالک کو، جہاں شامی مہاجرین سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں ایک اعشاریہ پانچ بلین یورو امداد دے چکے ہیں۔ تاہم بعض یورپی ممالک ایسے بھی ہیں جن کا شامی مہاجرین کی امداد میں کوئی خاص حصہ نہیں، اور وہ اقوام متحدہ کی اپیلوں کو نظر انداز بھی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود یورپی ممالک میں اقتصادی کساد بازاری قرار دی جا سکتی ہے۔

REUTERS/Ward Al-Keswani
دو برس سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے بیس لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی کر چکے ہیںتصویر: Reuters

یورپی یونین شامی مہاجرین کی مدد کے لیے کیا کر سکتی ہے؟ اس حوالے سے یورپی پارلیمنٹ میں بحث جاری ہے۔ ’’الائنس آف لبرلز اینڈ ڈیموکریٹس فار یورپ پارٹی‘‘ سے وابستہ نادیہ ہرش نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ای یو کو ایک ’’یورپیئن ایڈمیشن پروگرام‘‘ لانچ کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف دس یورپی ممالک کو یہ ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ تمام یورپی تک پھیلا دینا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے قبل ان ممالک کی آبادی اور اقتصادی طاقت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔

ہرش، جن کا تعلق جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی ہے، کہتی ہیں کہ جرمنی کو اس بات کی اجازت دینا چاہیے کہ جرمنی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین شام میں موجود اپنے اہل خانہ کو بھی جرمنی بلوا سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرانس اور برطانیہ نے صرف دو ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے جب کہ ان ممالک سے اس سے کہیں زیادہ کی توقع ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں