شام میں ترک فوج کا زمینی آپریشن شروع، عفرین کے بعد منبج بھی
20 جنوری 2018استنبول سے ہفتہ بیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن نے ترکی کے مغربی صوبے کوتاہیہ میں اپنی سیاسی جماعت اے کے پی کے ارکان کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آج کہا کہ عفرین میں انقرہ کے مسلح دستوں نے اپنی زمینی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جس کے بعد عنقریب ایسا ہی ایک آپریشن منبج میں بھی شروع کر دیا جائے گا۔
ترکی کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی ضمانت پر مطمئن نہیں
شامی تنازعے کا خاتمہ: روس، ایران اور ترکی ’پہلے قدم‘ پر متفق
روئٹرز نے لکھا ہے کہ صدر ایردوآن نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اس آپریشن کے لیے ترک فوجی دستے سرحد پار کر کے شام کے ریاستی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل آج ہی ترک فوج نے کہا تھا کہ اس نے کل جمعہ انیس جنوری کے دن اور آج ہفتہ بیس جنوری کی صبح عفرین میں کرد عسکریت پسندوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ان کی پناہ گاہوں پر توپ خانے سے حملے کیے۔
شام کا شہر عفرین کرد ملیشیا گروپوں کے جنگجوؤں کے قبضے میں ہے اور ترک فوج کے مطابق اس کارروائی میں کرد عسکریت پسندوں کے تین گروپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدر ایردوآن کا کوتاہیہ میں حکمران جماعت کے ارکان سے یہ خطاب ملکی ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیا گیا اور اس میں مزید کوئی وضاحت کیے بغیر صدر ایردوآن نے کہا، ’’عفرین میں زمینی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ اگلی باری منبج کی ہو گی۔‘‘ منبج شام کا ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب ایک دوسرا شہر ہے، جو کرد ملیشیا گروپوں کے کنٹرول میں ہے اور عفرین سے مشرق کی جانب واقع ہے۔
شامی کرد ملیشیا دیرالزور کے مشرقی حصے پر قابض
کُرد تنظیم کو اسلحےکی فراہمی کا امریکی منصوبہ قبول نہیں، ترکی
شام میں ترک فوجی مداخلت کا ہدف رقہ سے داعش کا خاتمہ، ایردوآن
عفرین اور منبج کے شامی شہر جن کرد عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں، ان کا تعلق عوامی حفاظتی یونٹس یا YPG نامی مسلح شامی کرد ملیشیا سے ہے۔ انقرہ حکومت اس کرد ملیشیا گروپ اور چند دیگر کرد گروہوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔
ترک صدر ایردوآن نے ابھی چند روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ عفرین میں عنقریب ہی ترک فوجی دستے کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ایک بڑا زمینی آپریشن شروع کرنے والے ہیں۔ اس اعلان کے بعد سے ترک مسلح افواج کی درجنوں گاڑیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں فوجی شام کے ساتھ ترک سرحدی علاقے کی طرف جاتے دیکھے گئے تھے۔
’کردوں کے بغیر امریکا سے عسکری تعاون ممکن‘ ترک وزیر خارجہ
صدر ایردوآن کے بقول، ’’ترک دستے بتدریج اپنے ملک کی سرحد کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والی اس راہداری کو ختم کر دیں گے، جو شامی کرد ملیشیا وائی پی جی نے قائم کر رکھی ہے۔‘‘
انقرہ حکومت کے مطابق شام میں وائی پی جی نامی کرد ملیشیا ترکی میں ممنوعہ کرد تحریک کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے ہی کی ایک شاخ ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی کو ترکی اور کئی مغربی ممالک ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں اور اسی لیے اس گروہ کو ممنوع بھی قرار دیا گیا تھا۔