شام میں جنگی جرائم: کس نے کیے، کیسے ہوئے؟ تحقیقات جاری
19 ستمبر 2016نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس پینل کو تازہ تازہ شام سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ بات چیت کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
پانچ سال پہلے قائم ہونے والے اس پینل کا کہنا ہے کہ اُس نے شامی تنازعے میں شامل تمام فریقوں کے ایسے مشتبہ افراد کی ایک خفیہ فہرست مرتب کی ہے، جنہوں نے جنگی جرائم کیے ہیں یا جو انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ پینل بڑی طاقتوں سے بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ شام کے معاملے میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر سے رجوع کریں۔
’یُو این کمیشن آف انکوائری آن سیریا‘ کے چیئرمین پاؤلو پنیئیرو نے جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا:’’ہم یورپ کے اندر تازہ تازہ شام سے آئے مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ممالک سے یہ اپیل کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں ان مہاجرین تک رسائی دیں اور ہمارے کام کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔‘‘
اُنہوں نے اُن یورپی ممالک کے نام نہیں بتائے، جو شامی مہاجرین تک رسائی نہیں دے رہے۔ بہت سے شامی مہاجرین یونان، اٹلی اور ترکی کے راستے سفر کرتے ہوئے بالآخر جرمنی پہنچ چکے ہیں۔
پاؤلو پنیئیرو نے کہا:’’اگر اس کمیشن کو اچھی طرح سے چھان پھٹک کر اس ملک کے تازہ حالات کے بارے میں جامع رپورٹیں تیار کرنے کا کام جاری رکھنا ہے تو پھر ان مہاجرین تک جلد از جلد رسائی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ آج کل یہ کمیشن شدت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جرائم اور پالمیرا میں ملنے والی اجتماعی قبروں کے سلسلے میں اُن معلومات کی جانچ پڑتال کر رہا ہے، جو شامی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو فراہم کی گئی ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز پر اس پینل نے کہا تھا کہ اُس کے ڈیٹا بیس میں پانچ ہزار مفصل انٹرویوز اور معلومات جمع ہیں، جن میں سے کئی ایک کو اُن ممالک کے حوالے بھی کیا جا چکا ہے، جن سے شام میں برسرِپیکار غیر ملکی جنگجو تعلق رکھتے ہیں۔
شامی سفیر حسام الدین علاء کے مطابق شامی فوج پر امریکی سرکردگی میں سرگرم عمل اتحادیوں کا حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’داعش کو اسلحے سے لیس کرنے والے متعدد ممالک اس دہشت گرد گروپ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘۔
علاء نے سینتالیس رُکنی رائٹس کونسل کو بتایا:’’یہ یُو این کمیشن ایسے نتائج پر پہنچا ہے اور اس نے ایسی تجاویز دی ہیں، جو کسی طرح بھی منصفانہ نہیں ہیں اور جن سے یقینی طور پر جانبداری ظاہر ہوتی ہے۔‘‘