شام میں سیکورٹی سخت، لازقیہ میں فوج طلب
28 مارچ 2011دمشق حکومت کے مطابق بندر گاہی شہر لازقیہ میں بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کر لیے گئے ہیں۔ مذہبی حوالے سے حساس شہر لازقیہ میں گزشتہ دو دنوں کے دوران ہونے والے ہنگاموں میں کم ازکم پندرہ افراد ہلاک جبکہ 150زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام نے اس صورتحال کا ذمہ دار بنیاد پرست مذہبی رہنماؤں کو ٹھہرایا ہے۔ اتوار کے دن لازقیہ میں روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی اور تمام مارکیٹیں بند رہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اتوار کو لازقیہ میں ہلاک ہونے والوں میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ بتایا گیا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے گھروں کی چھتوں سے فائرنگ کی، جس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ذمہ داران کون ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز سے شام میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک مجموعی طور پر تیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف انسانی حقوق کے اداورں کا کہنا ہے کہ اس دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 126 بنتی ہے۔ مظاہرین ملک میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
شدید دباؤ میں آئے ہوئے شامی صدر بشار الاسد کے ترجمان نے کہا ہے کہ ملک میں ہنگامی صورتحال کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے جبکہ آئندہ چند دنوں میں صدر ایک عوامی خطاب میں اس حوالے سے اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ شام میں مارچ 1963ء میں بعث پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ایمرجنسی نافذ ہے۔
شام میں عوامی مجمع پر پابندی ہے اور حکام کے پاس یہ اختیار ہےکہ وہ کسی بھی ایسے مشتبہ فرد کو گرفتار کر سکتے ہیں، جو سکیورٹی کے لیے خطرہ ہو۔ لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے وہ سڑکوں پر احتجاج کرتے رہیں گے۔
دریں اثناء خبر رساں ادارے روئٹرز نے کہا ہے کہ اس کے دو ٹی وی رپورٹرز ہفتے کی شب سے لاپتہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ لبنانی دارالحکومت بیروت میں واقع روئٹرز دفتر کے ٹیلی وژن پروڈیوسر Ayat Basma اور کیمرہ مین Ezzat Baltaji جمعرات کی دوپہر کو میڈیا کوریج کے لیے شام گئے تھے تاہم ہفتے کی رات سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد