صدر اوباما بدھ کے روز پہلی بار کسی امریکی مسجد میں
31 جنوری 2016واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے آج اتوار 31 جنوری کے روز بتایا گیا کہ تین روز بعد کیا جانے والا یہ دورہ باراک اوباما کی طرف سے صدر کے طور پر کسی امریکی مسجد کا پہلا دورہ ہو گا۔
اس سے قبل اپنے ایک سرکاری دورے کے دوران باراک اوباما 2010 میں انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کی ایک مسجد میں بھی جا چکے ہیں تاہم اس مرتبہ انہوں نے امریکا ہی میں مسلمانوں کی بہت بڑی مذہبی اقلیت کی ایک مسجد میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ صدر اوباما نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب امریکی مسلمانوں کو اپنے خلاف بڑھتے ہوئے اسلام دشمن جذبات کا سامنا ہے۔ ان مسلم مخالف جذبات کا تعلق جزوی طور پر ریپبلکن سیاستدان اور ارب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ متنازعہ بیانات سے بھی ہے، جو امریکا میں آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کے باقاعدہ امیدوار بننے کے خواہش مند رہنماؤں میں سے سب سے نمایاں ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق، ’’صدر اوباما بدھ تین فروری کے روز ریاست میری لینڈ جائیں گے، جہاں وہ اسلامی سوسائٹی آف بالٹی مور کے زیر انتظام کام کرنے والی ایک مسجد کا دورہ کریں گے۔ اس دورے کا مقصد امریکی معاشرے میں مسلم شہریوں کے کردار کا اعتراف ہے اور اس دوران مذہبی آزادی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا جائے گا۔‘‘
بالٹی مور کی اسلامی سوسائٹی کے زیر انتظام کام کرنے والی یہ مسجد اس امریکی شہر سے کچھ فاصلے پر مغرب کی طرف کینٹنزوِل Catonsville نامی چھوٹے سے شہر میں واقع ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا، ’’صدر اوباما وہاں مسلم برادری کے سرکردہ ارکان سے ملیں گے اور اپنے ہم وطن مسلم امریکیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیں گے کہ امریکا میں امریکی شہریوں کا ملک کی حقیقی اور بنیادی اقدار سے جڑا رہنا کتنا ضروری ہے۔‘‘
امریکا میں مسلمانوں اور ان کی مساجد پر حملوں میں حالیہ اضافے کے بعد مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ صدر اوباما کو کسی امریکی مسجد کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر مذہبی احترام اور باہمی برداشت کا واضح پیغام دیا جا سکے۔
اس سے قبل 2001ء میں امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے چند ہی روز بعد اس دور کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی واشنگٹن میں ایک اسلامی ثقافتی مرکز کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے کہا تھا، ’’اسلام تو امن ہے۔‘‘
بالٹی مور کی اسلامی سوسائٹی کی ویب سائٹ کے مطابق 1969ء میں یہ تنظیم محض چند مسلم خاندانوں نے مل کر قائم کی تھی۔ آج یہ تنظیم اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اس کا اپنا ایک اسکول بھی ہے، چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کی ایک نرسری بھی اور ایک شفا خانہ بھی۔ یہ اسلامی تنظیم بالٹی مور میں مختلف نسلوں اور قومیتوں کے حامل افراد پر مشتمل اور مسلسل پھیلتی ہوئی مسلم برادری کی نمائندہ سوسائٹی بن چکی ہے۔