طرابلس سے غیر ملکیوں کے انخلا کی کوششیں
20 اگست 2011ایک ایسے وقت میں، جب لیبیا کے باغیوں کی طرف سے پے درپے کامیابیوں کے دعووں کے ساتھ ساتھ اب دارالحکومت کی جانب پش قدمی کے اعلانات بھی سامنے آ رہے ہیں، بین الاقوامی برادری کی کوشش ہے کہ طرابلس میں پھنسے ہزاروں غیر ملکی شہریوں کا فوری انخلا عمل میں لایا جائے۔
باغیوں کا دعویٰ ہے کہ طرابلس کے مشرق سے شہر پر حملے کا آغاز ہو چکا ہے، تاہم یہاں انہیں معمر قذافی کی حامی افواج کی طرف سے شدید ترین مزاحمت کا سامنا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے طرابلس پر حملہ آور باغیوں کے بھاری جانی نقصان کی بھی اطلاعات دی ہیں۔
حالیہ دنوں میں طرابلس کے مغرب اور جنوب میں باغیوں کی کامیابیوں نے دارالحکومت کی جانب جانے والے زمینی راستے بند کر دیے ہیں اور طرابلس کا باقی علاقوں سے رابطہ کٹا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں لیبیا پر گزشتہ 41 برس سے حکمرانی کرنے والے معمر قذافی پر حکومت چھوڑنے کے لیے دباؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکومتی ترجمان کے بھائی کی مبینہ ہلاکت کی بھی اطلاعات دی ہیں۔
دوسری جانب باغیوں کی جانب سے طرابلس کے مشرق میں زليتن شہر پر بھی معمر قذافی کی حامی فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ تاہم بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق طرابلس کے مغرب کے مقابلے میں یہاں باغیوں کو بھاری جانی نقصان کا سامنا ہے۔ روئٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ زلیتن میں اب تک 32 باغی ہلاک ہو چکے ہیں اور اب تک درجنوں افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
باغیوں کی جانب سے ایک اور بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے ایک قریبی ساتھی اور سابق وزیراعظم عبدالسلام جلود باغیوں سے آن ملے ہیں۔ لیبیا کے الحرہ ٹی وی چینل پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی دور میں قذافی کے نائب کہلانے والے جلود طرابلس چھوڑ کر زلتین شہر میں باغیوں سے جا ملے ہیں۔
واضح رہے کہ عبدالسلام جلود نے سن 1969 میں معمر قذافی کی فوجی بغاوت میں مدد کی تھی اور سن 1970 میں انہیں وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد