عالمی سلامتی، جرمنی زیادہ فعال کردار ادا کرنے پر رضامند
13 جولائی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ عالمی سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے جرمنی اب عالمی برادری کے ساتھ مل کر زیادہ بہتر طریقے سے اپنا کردار نبھائے گا۔ تیرہ جولائی بروز بدھ جرمن حکومت نے ’وائٹ پیپر‘ کے نام سے ایک منصوبہ جاری کیا ہے، جس میں عہد کیا گیا ہے کہ عالمی سلامتی کو لاحق متعدد خطرات سے نمٹنے کے لیے جرمن حکومت زیادہ فعال کردار ادا کرے گی۔
یورپی یونین اور نیٹو کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں روس کی طرف سے ممکنہ خطرات کے علاوہ اسلام پسندوں کی جانب سے دہشت گردی، ماحولیاتی تبدیلیاں اور مہاجرین کا بحران سرفہرست ہیں۔ بدھ کو جاری کردہ اس ’وائٹ پیپر‘ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک اہم ملک ہے لیکن ساتھ ہی اسے خطرات بھی لاحق ہیں، ’’اس لیے اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرے‘‘۔
وائٹ پیپر نامی اس روڈ میپ کے مطابق جرمنی موجودہ اور مستقبل کے سکیورٹی اور انسانی بحرانوں کے حل میں مدد کے لیے تیار ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ نے اس مجوزہ منصوبے کو منظور کر لیا ہے جب کہ اگلے مرحلے میں اسے وزیر دفاع ارسلا فان ڈیر لاین کو ارسال کیا جائے گا۔
اس پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ دیگر خطرات کے علاوہ جرمنی میں اس وقت دہشت گردانہ حملوں کا خدشہ بھی شدید ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ابھی تک جرمنی ایسے حملوں سے بچا ہوا ہے لیکن موجودہ صورت حال میں یہ خطرہ زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اس تںاظر میں کہا گیا ہے کہ ملکی سرحدوں کے اندر بھی ملکی فوج کو زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
جرمنی کے ’نازی ماضی‘ کے دور کو دیکھتے ہوئے برلن حکومت کی طرف سے پیش کردہ اس منصوبے کو ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے نوّے کی دہائی میں پہلی مرتبہ بلقان میں اپنا امن فوجی مشن روانہ کیا تھا۔
حال ہی میں جرمنی نے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت افغانستان ، مالی اور دیگر ممالک میں اپنے فوجی دستے تعینات کیے تھے۔ انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف کارروائی میں بھی عالمی برداری کی مدد کے لیے برلن حکومت نے کثیر القومی اتحاد کی حمایت کی تھی، جس نے اعتدال پسند شامی باغیوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔
یوکرائن کے معاملے پر روس اور یورپی یونین کے مابین تناؤ کی کیفیت میں چانسلر میرکل نے اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کشیدگی میں کمی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ ہفتے ہی میرکل نے مشرقی یورپی ممالک میں آئندہ برس سے نیٹو کی افواج کی موجودگی بڑھانے پر رضا مندی بھی ظاہر کی تھی۔