فاٹا میں ہزاروں ’ناپید‘ اساتذہ کو سالانہ اربوں کی ادائیگیاں
4 اپریل 2018سن 2015 میں فاٹا میں کُل تین سو ساٹھ اسکول تباہ ہوئے، جن میں سے 166 شمالی وزیرستان، 139 خیبر ایجنسی اور 55 جنوبی وزیرستان میں واقع تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق فاٹا میں کل چھ لاکھ چوہتر ہزار طلبا و طالبات پرائمری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، جن میں سے ستّر فیصد پانچویں جماعت سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔
پاکستان: یونیورسٹیاں تین گنا مگر ناخواندگی میں بھی اضافہ
پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں اسکولوں کی موجودہ مجموعی تعداد چھ ہزار بنتی ہے، جن میں سے ساڑھے چار ہزار پرائمری اسکول ہیں۔ ان اسکولوں میں تعینات اساتذہ کی تعداد چوبیس ہزار کے قریب ہے۔ ذرائع کے مطابق ان اساتذہ میں سے ایک چوتھائی یعنی قریب چھ ہزار اساتذہ ’گھوسٹ ٹیچرز‘ یا جعلی ہیں۔ یوں اگر ایسے اساتذہ کو شمار نہ کیا جائے تو فاٹا میں اوسطاﹰ پینتیس طلبا کے لیے صرف ایک استاد موجود ہے۔
فاٹا کے لیے 17 ارب روپے سالانہ کا تعلیمی بجٹ مختص ہے، جس میں سے 80 فیصد تنخواہوں اور دیگر انتظامی امور جب کہ 17 فیصد تعمیرات کے لیے مختص ہے۔
ڈی ڈبلیو کو فاٹا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی اہم دستاویزات ملی ہیں، جن سے اس شعبے میں ہونے والی کئی طرح کی شدید بے ضابطگیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق فاٹا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کئی اساتذہ اور ملازمین ایسے بھی ہیں، جنہیں دوہری اور بعض اوقات تو تین تین تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ ایسی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ محکمے کے ایک سابق ڈائریکٹر نے اپنی ہی بیٹی کو مہمند ایجنسی میں بطور ٹیچر تعینات کیا اور بعد ازاں انہیں خیبر ایجنسی میں ٹرانسفر کر دیا لیکن ڈی ڈبلیو کی تحقیقات کے مطابق یہ ٹیچر ان دونوں جگہوں پر کسی اسکول میں پڑھانے کبھی گئی ہی نہیں۔
پاکستان میں کسی طاق عدد پر ختم ہونے والے شناختی کارڈز کے نمبر مردوں جب کہ جفت عدد والے شناختی کارڈ خواتین کے ہوتے ہیں۔ تاہم دستیاب دستاویزات میں ادارے کی 189 ملازم خواتین ایسی بھی ہیں، جن کے شناختی کارڈز کے نمبر مردوں والے ہیں۔ ایک استانی کا شناختی کارڈ نمبر تو ایسا بھی ہے جو ابھی نادرا نے جاری ہی نہیں کیا۔ علاوہ ازیں کئی خواتین کی تعیناتی ایسے عہدوں پر بھی کی گئی، جو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔
پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک
ایک اور دستاویز میں ایسے سات ملازمین کے بارے میں معلومات موجود ہیں جو کہ خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں قواعد و ضوابط کے منافی براہ راست تعینات کیے گئے۔ اس امر کی جملہ معلومات ایجنسی کے اکاؤنٹ افس کو بھجوائی گئیں، تاہم اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
ڈی ڈبلیو کو ملنے والی ایک اور دستاویز میں 49 ایسے ملازمین کے بارے میں بھی تفصیلات موجود ہیں جو یا تو بیرون ملک مقیم ہیں، یا وہ پاکستان میں کسی اور علاقے میں کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان افراد کو باقاعدگی سے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے ہی ایک استاد چھٹی لیے بغیر ان دنوں مصر میں زیر تعلیم ہیں لیکن انہیں بھی تنخواہ دی جا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر سے ان کے موجودہ اسٹیٹس کے بارے میں پوچھا تو سہی لیکن اس بارے میں کوئی تفصیلات مہیا نہیں کی گئیں۔
پاکستانی قبائلی علاقہ جات میں ایسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں جہاں لڑکوں کے کسی اسکول میں خواتین اساتذہ پڑھا رہی ہوں تاہم ان دستاویزات میں لڑکوں کے اسکولوں میں کئی خواتین اساتذہ بھی تعینات ہیں۔ فاٹا ایجوکیشن مانیٹرنگ سیل کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فاٹا میں خواتین کی نوکریوں کے لیے بہت سے ڈونرز کے علاوہ حکومت بھی پیسے لگانے کو تیار ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی ’گھوسٹ نوکریوں‘ کے لیے زیادہ تر خواتین کو بھرتی کیا گیا ہے۔ اس اہلکار کے مطابق قبائلی علاقوں میں خواتین کے بارے میں تصدیق کرنا بھی آسان کام نہیں ہوتا اور اس لیے بھی وہاں گھپلے کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر فاٹا ایجوکیشن ہاشم خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈی ڈبلیو کے پاس موجود دستاویزات چند برس پہلے تیار کی گئی تھیں اور ان میں سے کئی معاملات میں نیب کی طرف سے چھان بین کی جا رہی ہے۔
شہاب الدین خان باجوڑ ایجنسی سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’فاٹا سیکرٹریٹ ایک بلیک ہول ہے جہاں فنڈز آتے تو ہیں لیکن ان سے یہ فنڈز باہر نکلتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھے، اور نہ کوئی دیکھنے کی امید کرے۔ کیوں کہ یہ ادارہ خود کو کسی کے بھی سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا۔‘‘