فوج میرے ساتھ ہے، پرویز مشرف
29 دسمبر 2013انہوں نے یہ باتیں اتوار کو اسلام آباد میں غیرملکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں برس اپریل میں اپنی نظربندی کے بعد انٹرنیشنل میڈیا سے یہ ان کی پہلی بات چیت ہے۔
اس گفتگو میں 70 سالہ مشرف نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے خلاف غداری کے الزامات پر ’پوری فوج‘ کو پریشانی لاحق ہے۔ پرویز مشرف کو مارچ میں وطن لوٹنے کے بعد سے متعدد مقدمات اور الزامات کا سامنا ہے، جن میں غداری کے دعوے ممکنہ طور پر سب سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اس مقدمے نے حکومت کے لیے ممکنہ طور پر طاقتور فوج کے ساتھ تصادم کی صورت پیدا کر دی ہے۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کو سویلین عدالت کے ہاتھوں رسوا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔
پرویز مشرف نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہا: ’’میں یہ کہوں گا کہ پوری فوج پریشان ہے، میں نے آگے بڑھ کر فوج کی قیادت کی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’مجھے جو فیڈ بیک ملی ہے اس کے تحت بلاشبہ پوری فوج ۔۔۔ اس معاملے میں مکمل طور پر میرے ساتھ ہے۔‘‘
پاکستانی فوج 66 سالہ ملکی تاریخ کے نصف سے زائد برسوں تک اقتدار میں رہی ہے اور آج بھی بہت اثر و رسوخ کی حامل ہے۔ تاہم فوج نے پرویز مشرف کو درپیش قانونی مسائل پر کھُل کر کوئی بیان نہیں دیا۔
ان کے خلاف غداری کا مقدمہ نومبر 2007ء میں ان کی حکومت کے دوران ہنگامی حالت کے نفاذ سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں سزائے موت یا عمر قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس مقدمے کی سماعت ایک خصوصی ٹریبیونل کر رہا ہے۔ ابتدائی سماعت 24 دسمبر کو ہونا تھی، جو اُس راستے پر دھماکا خیز مواد ملنے کے بعد روک دی گئی تھی، جہاں سے گزر کر پرویز مشرف عدالت جانے والے تھے۔ آئندہ سماعت یکم جنوری کو ہو گی تاہم مشرف نے کہا ہے کہ انہوں نے عدالت میں پیش ہونے سے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’’جس طریقے سے ٹریبیونل تشکیل دیا گیا ہے، جس عمل میں وزیر اعظم اور سابق چیف جسٹس شامل ہیں، اس سے انتقامی کارروائی کی بُو آتی ہے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکلاء نے غداری کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت مشرف کے ساتھ عدلیہ کے ذریعے پرانی دشمنی نکال رہی ہے۔