مشرف، سنگین غداری کے مقدمے کی باضابطہ درخواست
12 دسمبر 2013سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کے لئے خصوصی عدالت کے ایکٹ 1976 ء کے تحت یہ درخواست وفاقی سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے جمعرات کو دائر کی۔
آٹھ صفحات پر مشتمل اس شکایت کے ہمراہ ان دستاویزات کی فہرست بھی منسلک کی گئی ہے جو اس مقدمے سےمتعلق اہم شواہد ہیں۔ اس مقدمے میں سرکاری گواہان کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست بھی خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو کو جمع کرائی گئی ہے۔
حکومت نے خصوصی عدا لت سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جنرل (ر) پر ویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے ایکٹ 1973ء کے تحت کارروائی کی استدعا کی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 ء کو ملکی آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کی۔ اس گہرے آئینی اقدام پر ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ (سنگین غداری) کے تحت کارروائی کی جائے۔
وفاقی حکومت نے پرویزمشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کے لئے گزشتہ ماہ سندھ ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی تھی۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی خصوصی ٹیم نے اس مقدمے کی تحقیقات کی ہیں۔ جبکہ وزارت داخلہ نے گزشتہ روز بیرسٹر اکرم شیخ کی سربراہی میں استغاثہ کی گیارہ رکنی ٹیم کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔
حکومتی درخواست میں تنہا جنرل مشرف کو آئین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ حکومت کو جنرل مشرف کے علاوہ ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی کاروائی کی درخواست کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ :اس میں میرے زہن میں جو مسئلہ آرہا ہے وہ یہ ہے کہ جنرل مشرف تنہا کیوں ؟ باقی اس کے ساتھی کیوں نہیں ؟ تو اسکے کم ازکم وہ تمام ساتھی جن کا زکر تین نومبر کے عدالتی حکم میں کیا گیا ہے ان سب کو شریک ملزمان میں ہونا چاہیے۔"
سپریم کورٹ کے وکیل احسن الدین شیخ کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف نے تین نومبر دو ہزار سات کی ایمر جنسی نافذ کرنے کا اعتراف خود کیا تھا لہذا کارروائی بھی انہی کے خلاف ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ جنرل مشرف کے ٹرائل سے فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ : وہ ایک آمر تھا اور جو ایمر جنسی کا نفاذ اس نے کیا تھا اس میں لفظ یہ تھے کہ "میں جنرل مشرف" تو میں سمھجتا ہوں کہ اس کے خلاف جو شکایت درج کرائی گئی ہے وہ قانون کے مطابق اور درست ہے۔"
استغاثہ کی سرکاری ٹیم میں شامل ایک وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کے علاوہ مزید افراد کے اس مقدمے میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ تفتیشی رپورٹ پر ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ :"اس کو اس تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا کہ تفتیشی ادارے نے کس حد تک اس تفتیش کے دوران مختلف شخصیات یا جن لوگوں کا زکر کیا ہے ان کی زمہ داری کاتعین کیا ہے۔"
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے جنرل مشرف کے خلاف ایک ایسے موقع پر عدالتی کاروائی کاآغاز کیا ہے جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوھدری ایک روز قبل اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ جنرل مشرف نے پہلے نو مارچ دو ہزار سات اور پھر تین نومبر 2007 ء کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا تھا۔ افتخار محمد چوہدری کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ملک کے 21 ویں چیف جسٹس کی حثیت سے آج (جمعرات ) کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ایوان صدر میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر مملکت ممنون حسین نے ان سے حلف لیا۔