قطر میں اسلامی مبلغ ذاکر نائک کی موجودگی سے بھارت برہم
23 نومبر 2022بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک مرکزی وزیر نے فٹبال ورلڈ کے دوران، معروف اسلامی مبلغ ذاکر نائک کی قطر میں موجودگی پر اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے بالآخر پہلا رد عمل دیا اور کہا کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
بھارتی مبلغ ذاکر نائیک کو ملائیشیا میں مستقل رہائش مل گئی
ان کا کہنا تھا کہ قطر کی حکومت نے آخر بھارتی نژاد متنازعہ مبلغ کو اس موقع پر بطور خصوصی مہمان دوحہ آنے کی دعوت کیوں دی، اس بارے میں بھارت اپنے موقف کو مضبوط ترین الفاظ میں دوحہ کے ساتھ اٹھائے گا۔
ذاکر نائیک کی تنظیم پر پانچ برس کی پابندی
واضح رہے کہ بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ذاکر نائک کو ورلڈ کپ کے موقع پر دعوت دینے پر سخت اعتراض کیا ہے اور مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی وجہ سے قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے گزشتہ کئی روز سے بحث جاری ہے۔
مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف بھارت میں تحقیقات شروع
حالانکہ بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکڑنے بھارت کے نمائندہ کے طورپر اپنی اہلیہ کے ساتھ فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔
حکومت کا رد عمل
اس حوالے سے جب بھارتی صحافیوں نے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر ہردیپ پوری سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا: ''ان (ذاکر نائیک) کے بارے میں ہمارے (بھارت کے) اپنے خیالات ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کے بارے میں سخت ترین الفاظ میں متعلقہ حکام کو آگاہ کیا جائے گا۔''
قطر کی جانب سے ذاکر نائیک کو فیفا ورلڈ کپ میں مدعو کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر نے کہا، ''مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے۔'' تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت اس پر اپنا احتجاج درج کرائے گا، تو انہوں نے جواب دیا، ''مجھے یقین ہے کہ بھارت نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور آگے بھی اٹھائے گا۔''
ان کا مزید کہنا تھا: ''لیکن بات یہ ہے کہ وہ ملائیشیا کے شہری ہیں اور انہیں کہیں مدعو کیا گیا ہے...اس بارے میں انہیں علم ہے یا نہیں، مجھے کچھ بھی نہیں معلوم۔ میرے پاس معلومات تک اتنی ہی رسائی ہے جتنی آپ کے پاس ہے۔''
ہردیپ پوری کا کہنا تھا، ''آپ مجھ سے ذاکر نائیک کے بارے میں میرے خیالات پوچھ سکتے ہیں۔ اس پر میرے خیالات اور آپ کے خیالات یکساں ہیں۔ ایک متعلقہ سوال کا جواب دیتے ہوئے، وزیر نے کہا، ''ہم (بھارت) ان کے بارے میں اپنے خیالات رکھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان خیالات سے قطر کے متعلقہ حکام کو مضبوط ترین الفاظ میں آگاہ کیا جائے گا۔''
واضح رہے کہ قطری حکومت نے بھارتی نژاد معروف اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کو مدعو کیا ہے، جہاں وہ فیفا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے دوران مذہبی امور پر لیکچر دینے کا کام کر رہے ہیں۔
بی جے پی کا ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کا مطالبہ
ادھر حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ایک ترجمان سیویو روڈرگز نے حکومت، بھارتی فٹ بال ایسوسی ایشن اور میزبان ملک کا سفر کرنے والے بھارتیوں سے اپیل کی ہے کہ چونکہ قطر نے متنازعہ اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کو فیفا ورلڈ کپ میں مدعو کیا ہے، اس لیے اس کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فیفا ورلڈ کپ ایک عالمی ایونٹ ہے۔ ''دنیا بھر سے لوگ اس شاندار کھیل کو دیکھنے آتے ہیں اور لاکھوں لوگ اسے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بھی دیکھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب دنیا عالمی دہشت گردی سے لڑ رہی ہے، ذاکر نائیک کو ایک پلیٹ فارم دینا، ایک دہشت گرد کو اپنی بنیاد پرستی اور نفرت پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم دینے کے مترادف ہے۔''
ملیشیا کی شہریت
اسلامی مبلغ ذاکر نائک کا تعلق بھارتی ریاست مہا راشٹر سے ہے، تاہم مودی کی حکومت نے ذاکر نائیک کے خلاف منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقاریر جیسے متعدد الزامات کے تحت کئی مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت چھوڑ کر ملیشیا میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی حکومت کے نزدیک وہ ایک مفرور ملزم ہیں۔
اس برس مارچ میں وزارت داخلہ نے نائیک کی قائم کردہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کو ایک غیر قانونی ادارہ قرار دیتے ہوئے اس پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی تھی۔
تاہم ذاکر نائک ان تمام الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت بھارت میں انہیں تبلیغ سے روکنے کے لیے ان کے خلاف اس طرح کے جھوٹے الزامات لگاتی رہی ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے ان کے ٹی وی چینل پیس ٹی وی پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے حوالے سے اپنی منطقی تقریروں کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ قوم پرستی، ہم جنس پرستی، اسامہ بن لادن اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر مخصوص طبقات ان کے خیالات کو پسند نہیں کرتے اور بعض افراد ان پر مسلکی منافرت پھیلانے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقاریر پر ان کے مبینہ طور پر انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے برطانیہ اور کینیڈا میں پابندی عائد ہے تاہم دنیا کے 125 ممالک میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کے پِیس (امن) ٹی وی کی نشریات دیکھی جاتی ہیں۔