قذافی لیبیا میں رہ سکتے ہیں، باغیوں کی مشروط پیشکش
4 جولائی 2011اتوار کے روز خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالجلیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ماہ پہلے یہ پیشکش اقوام متحدہ کے ذریعے کی تھی لیکن قذافی کی طرف سے کوئی بھی جواب سامنے نہیں آیا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے گزشتہ ہفتے قذافی، ان کے بیٹے سیف الاسلام اور انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ عبداللہ سنوسی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ لیبیا کے باغیوں کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ یہ تینوں افراد جیل میں ہوں۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا، ’’اگر قذافی لیبیا میں رہنے کے خواہش مند ہیں تو بین الاقوامی برادری کے زیر نگرانی ان کے لیے جگہ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی تمام نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔‘‘
باغیوں کے سربراہ کا مزید کہنا تھا، ’’اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے ہم پیشکش کرتے ہیں کہ قذافی اپنے عہدے سے استعفی دے دیں، اپنے فوجیوں کو بیرکوں اور عہدوں سے دستبردار ہونے کا حکم دیں اور پھر وہ لیبیا میں یا کسی دوسرے ملک میں رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘
جہاں قذافی کو مسئلے کے پر امن حل کے لیے پیشکش کی جا رہی ہے، وہیں ان پر سفارتی دباؤ میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ترکی نے سرکاری طور پر طرابلس سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے جبکہ ترک وزیر خارجہ نے باغیوں کے گڑھ بن غازی کا دورہ کیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ Ahmet Davutoglu نے اتوار کو بن غازی میں باغیوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اپنے اس دورے میں ترک وزیر خارجہ نے لیبیا کے لیے 200 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اپنے اس دورے کے دوران ترک وزیر خارجہ نے باغیوں کو لیبیا کے عوام کے نمائندے کی حیثیت سے تسلیم بھی کر لیا ہے۔
دریں اثنا جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی ماسکو کا دورہ کریں گے تاکہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جاسکے۔ اس تنازعہ کو ختم کرنے کی ان کی ابھی تک کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ دوسری جانب باغیوں نے افریقی یونین کا امن منصوبہ ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل