1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاعلاج مرض، موت یقینی مگر امید قائم

عاطف توقیر
25 مارچ 2018

سن 2013 کے موسم سرما میں گردن کے سرطان کے لاعلاج مرض میں متبلا 36 سالہ سو اسکاٹ نے اپنی آخری رسومات کی تیاری خود کی، مگر ایک نیا طریقہء علاج انہیں موت کے منہ سے واپس نکال لایا۔

https://p.dw.com/p/2uwP6
Bakterien Zellen Virus
تصویر: Fotolia/Irina Tischenko

کیموتھراپی، تابکار تھراپی اور سرجری کے کئی دور ناکام ہو گئے اور سرطان مزید تیزی سے جسم میں پھیلنے لگا۔ ابتدا میں گردن کے ذریعے سر سے جڑی ریڑھ کی ہڈی کا یہ سرطان اسکاٹ کے جگر، کندوں اور حتیٰ کے یوٹرس تک میں پھیل گیا، تو اس نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر ان ڈاکٹروں کے تجربات کے سپرد کر دیا، جو مریضوں کے مدافعاتی نظام کو جزوی طور پر تبدیل کرنے کی تحقیق میں مصروف تھے۔ یہ محققین جسم کے مدافعاتی نظام کے ٹی خلیوں کو تبدیل کر کے اسے سرطان پیدا کرنے والے ہیومن پاپیلوما وائرس (VPV) پر حملہ کرنے اور انہیں ختم کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پاپیلوما وائرس عموماﹰ جنسی اختلاط سے منتقل ہونے والا وائرس ہے۔

بہت زیادہ پراسیس شدہ کھانے کینسر بڑھانے کا باعث

مورگن چوانگرائی، جس نے مگابے کو خوفزدہ کر دیا تھا

الجزائر میں چھاتی کے کینسر کی شکار ’آدھی عورتیں‘

مگر ٹی خلیوں کی مدافعاتی نظام میں سے چند ہی ماہ میں اسکاٹ کے جسم میں موجود تمام رسولیاں ختم ہوتی چلی گئیں۔

رواں برس مارچ میں اسکاٹ نے سرطان کے خاتمے کے پانچ برس مکمل ہونے کا جشن منایا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی ہے۔

اسکاٹ اب سرطان کے مریضوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ اسکاٹ کے مطابق، ’’سب سے بہترین بات تو یہ ہے کہ میں بہت سے لوگوں کے لیے امید کی کرن بن چکی ہوں۔‘‘

امریکی حکومت نے اس تحقیقی منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کیا تھا اور اسے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کلینکل سینٹر نے مکمل کیا۔ اسے طب کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے، کیوں کہ اس سے امیون تھراپی یا مدافعتی تھراپی کا نیا باب کھل گیا ہے۔ اس طریقے کے استعمال سے خون کے سرطان تک کے علاج میں کسی حد تک کامیابی دیکھی گئی ہے۔

اسکاٹ کے جسم کے خلیات کی تفصیلی جانچ جاری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس طریقے سے سرطان کے لاکھوں مریضوں کو موت سے بچایا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں جین کی اندرونی ترتیب پر کام کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں اسی انداز سے دیگر مریضوں کے جین کو سرطان سے لڑنے والے خلیات پیدا کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔