لیبیا: وزیراعظم کی طرف سے جنگ بندی کی تجویز کا امکان
26 مئی 2011برطانوی اخبار ’دی انڈیپینڈنٹ‘ کا کہنا ہے کہ اس خط کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قذافی حکومت نہ صرف باغیوں کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہے، بلکہ انہیں عام معافی دینے کے علاوہ نئے آئین کی تیاری پر بھی آمادہ ہے۔
اخبار میں چھپنے والے اس خط کے مندرجات کے مطابق: ’’مستقبل کا لیبیا تین ماہ قبل والے لیبیا سے بہت زیادہ مختلف ہوگا۔ یہ منصوبہ ہمیشہ سے تھا، تاہم اب اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ دی انڈیپینڈنٹ کے مطابق خط میں مزید لکھا ہے: ’’ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لڑائی روک کر مذاکرات شروع کیے جائیں، ایک نئے آئین پر اتفاق اور حکومت کا ایک ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ یہ دونوں نہ صرف ہمارے معاشرے کی درست عکاسی کریں بلکہ عصری حکومتی تقاضوں کو بھی پورا کریں۔‘‘ خط میں مزید لکھا گیا ہے: ’’ ملک میں جاری تشدد کے سلسلے کو مفاہمتی سلسلے میں بدلنا ہوگا۔ دونوں فریقوں کو ترغیب کی ضرورت ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اتفاق رائے تک پہنچنے کے سلسلے کا آغاز کریں۔‘‘
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے رواں ہفتے لیبیا کے خلاف فضائی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے تاہم امریکی صدر باراک اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بدھ کے روز خبردار کیا تھا کہ مستقبل قریب میں کامیابی کے امکانات کم ہی ہیں۔
برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ نے ایک حکومتی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مغربی طاقتوں کو معمر قذافی کی جلا وطنی کی پیشگی شرط کے بغیر ہی جنگ بندی قبول کر لینی چاہیے۔ تاہم امریکی صدر باراک اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی بدھ کے روز ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ معمر قذافی کو ہر حال میں ملک چھوڑنا ہوگا۔
برطانوی اخبار کے مطابق لیبیا کے وزیر اعظم کے پیغام میں ایک نئی بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس میں یہ شرط نہیں لگائی کہ قذافی ملک کے مستقبل کا ایک لازمی حصہ ہوں گے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک