مسلمان آبادی کے خلاف سرگرم یورپی انتہا پسند
21 دسمبر 2010یہ جماعتیں اسرائیل کو اسلام کے خلاف ایک قلعہ تصور کرتی ہیں اور اِن کے ارکان اِس یہودی ریاست کی اِس حیثیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اِس ملک کے دورے بھی کر رہے ہیں۔ فرانس میں نیشنل فرنٹ کے لیڈر ژاں ماری لے پَین نے پُر ہجوم مساجد کے باہر نماز ادا کرتے مسلمانوں کا موازنہ دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنوں کے قبضے سے کرتے ہوئے فرانسیسی سیاسی منظر میں خاصی ہلچل پیدا کر دی تھی۔
سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کی تحریک کے ایک چیمپیئن آسکر فرائی زِنگر نے گزشتہ ہفتے کے روز پیرس میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ایک اجتماع میں خبردار کیا کہ یورپ آبادی کے ساتھ ساتھ سماجی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی اسلام کے رنگ میں رنگتا جا رہا ہے۔ اس اجتماع سے جرمنی اور بیلجیئم سے گئے ہوئے کارکنوں نے بھی خطاب کیا۔
گیئرٹ ولڈرز نے، جن کی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت ہالینڈ کی اقلیتی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے، گزشتہ ہفتے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ وہ یورپ بھر میں ’اسلام کے خلاف جنگ‘ میں مصروف گروپوں کے باہمی رابطے کے لئے ایک ’انٹرنیشنل فریڈم لائنس‘ منظم کر رہے ہیں۔
رواں مہینے کے اوائل میں ولڈرز نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور مقبوضہ مغربی اردن میں اسرائیلی بستیوں کی حمایت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ وہاں بسنے والے فلسطینیوں کو اردن چلے جانا چاہئے۔ جس وقت ولڈرز اسرائیل کے دورے پر تھے، جرمنی، آسٹریا، بیلجیئم، سویڈن اور دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے اُن کے ہمنوا بھی اپنے اپنے طور پر اسرائیل کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔
گزشتہ ہفتے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے ولڈرز نے کہا تھا کہ ’ہماری ثقافت کی بنیادیں مسیحیت، یہودیت اور انسان دوستی پر قائم ہیں اور وہ (اسرائیلی) ہماری جنگ لڑ رہے ہیں اور اگر یروشلم ہاتھ سے چلا گیا تو اُس کے بعد ایمسٹرڈم اور نیویارک کی باری ہو گی‘۔
ولڈرز اپنے ملک سے باہر موجود اسلام مخالف حلقوں کے ساتھ اتحاد کے تو حامی ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دائیں بازو کی کچھ پرانی جماعتیں، جیسے کہ فرانس کی نیشنل فرنٹ یا برٹش نیشنل پارٹی ’محض نسل پرست جماعتیں‘ ہیں، جن کی وہ کوئی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی اُن کے ساتھ اشتراکِ عمل کے خواہاں ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک