مصر کی سیاسی جماعیتں اور انتخابات
3 جنوری 2012ایوان زیریں کے انتخابات کا تیسرا اور آخری مرحلہ دو دن تک جاری رہے گا۔ جاری انتخابی عمل میں 498 ارکان اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالے جارہے ہیں جبکہ دس ارکان کو ملک کے عبوری فوجی رہنما فیلڈ مارشل حسین طنطاوی کی طرف سے مقرر کیا جائے گا۔
اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد دوبارہ انتیس جنوری کو ایوان بالا، جسے مصر میں شوریٰ کونسل کے نام سے پکارا جاتا ہے کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا کے انتخابات کے بعد منتخب اراکین کو ایک نیا آئین تشکیل دینا ہوگا اور اس کے بعد سن 2012 کے اختتام سے پہلے پہلے صدارتی انتخابات کروانا ہوں گے۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق حسنی مبارک کے دور میں کالعدم قرار دی جانے والی جماعت اخوان المسلمون سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ثابت ہوگی لیکن اسے مکمل اکثریت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ انتخابات کے پہلے دو مرحلوں میں اسی جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس اعتدال پسند اسلامی جماعت کو مصر کی سب سے منّظم سیاسی جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
پہلے دو مرحلوں میں دوسرے نمبر پر قدامت پسند سلفی جماعت النور رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو مجموعی طور پر ووٹنگ کے پہلے دو مرحلوں میں 65 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
انتخابات میں شامل ’الکتلہ المصریہ‘ ملک کا سب سے بڑا لبرل اتحاد ہے اور اسے ’المصر بلاک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس اتحاد میں ملک کی پندرہ جماعیتں شامل ہیں۔ اس اتحاد میں ’حزب المصريين الأحرار‘ جماعت بھی شامل ہے، جس کے سربراہ قبطی عیسائی اور ٹیلی کمیونیکشن ٹائیکون نجیب ساویرس ہیں۔
تاہم انتخابی عمل کے مکمل ہونے پر اس وقت ملک میں برسراقتدار فوج کی طرف سے کس قدر اختیارات پارلیمان کو دیے جائیں گے، ابھی تک غیر واضح ہے۔ مصر میں شدید احتجاجی مظاہروں کے بعد مصری فوج نے ایوان بالا کے انتخابات مختصر عرصے میں کروانے کا اعلان کیا تھا اور اسی وجہ سے ان کا آغاز بھی رواں ماہ کے اواخر میں کر دیا جائے گا۔ ایوان بالا کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں تیرہ صوبوں میں پولنگ ہو گی، جن میں قاہرہ اور اسکندریہ جیسے بڑے شہر بھی شامل ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ صدارتی انتخابات کا انعقاد جون میں کیا جائے گا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: حماد کیانی