نئے سال میں روس کے ساتھ زیادہ مکالمت، نیٹو سربراہ پرامید
29 دسمبر 2017بیلجیم کے دارالحکومت برسلز سے، جہاں یورپی یونین کے علاوہ نیٹو کے صدر دفاتر بھی ہیں، جمعہ انتیس دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سن 2014 کے اوائل میں جب مشرقی یورپی ملک یوکرائن کے مشرقی حصے میں علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک نے سر اٹھایا تھا اور ماسکو نے ان باغیوں کی حمایت شروع کر دی تھی، تو روس اور نیٹو کے باہمی تعلقات سرد جنگ کے بعد کے دور کی اپنی اب تک کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہی دنوں میں روس نے یوکرائن کے جزیرہ نما کریمیا کو بھی ’زبردستی‘ اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا۔ ان واقعات کے بعد دو سال تک نیٹو اور روس کے تعلقات بالکل منجمد ہو کر رہ گئے تھے۔
ان تعلقات میں کچھ بحالی اس وقت دیکھنے میں آئی تھی، جب 2016ء میں نیٹو اور روس کے سفیروں نے آپس کے براہ راست مذاکرات بحال کیے تھے۔
اس کے باوجود برسلز میں نیٹو اتحاد اور ماسکو میں روسی حکومت کے مابین کھچاؤ اور بداعتمادی ابھی تک پائی جاتی ہے، حالانکہ سال 2017ء کے آغاز پر دونوں کے مابین یوکرائن کے بحران کے پیدا ہونے کے بعد سے پہلی بار اعلیٰ ترین فوجی قیادت کی سطح پر بات چیت بھی ہوئی تھی۔
اس تناظر میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں اب یہ امید ظاہر کی ہے کہ نئے سال 2018ء میں روس اور نیٹو کے مابین نہ صرف زیادہ مکالمت ہو گی بلکہ اطراف کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے مابین براہ راست ٹیلی فون لائن پر بھی زیادہ رابطے دیکھنے میں آئیں گے۔
یوکرائن: حکومت اور روس نواز باغیوں نے کئی قیدی رہا کر دیے
یوکرائن کے لیے امریکی ہتھیار، نئی خونریزی کے خلاف روس کی تنبیہ
اسٹولٹن برگ نے کہا، ’’ہم سیاسی اور فوجی قیادت، دونوں سطحوں پر مکالمت کے عمل میں آگے بڑھ رہے ہیں اور اس مثبت سوچ کی نیٹو کے رکن تمام ممالک کی طرف سے مکمل تائید و حمایت کی جا رہی ہے۔‘‘
نیٹو کے ماسکو کے ساتھ روابط کے حوالے سے اب تک کی صورت حال میں یہ بات بھی اہم ہے کہ مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسند باغیوں کی حمایت کی صورت میں روسی جارحیت کے خلاف نیٹو اپنی دفاعی صلاحیتوں میں بھی کافی اضافہ کر چکا ہے۔
یوکرائن میں روس نواز باغیوں کا ’چھوٹے روس‘ کے قیام کا اعلان
یورپی یونین کے رکن ممالک کا دفاعی یونین کے قیام کا فیصلہ
اس کے علاوہ نیٹو کا روس پر یہ الزام بھی ہے کہ ماسکو غلط پراپیگنڈے اور سائبر حملوں کے خطرات کو استعمال کرتے ہوئے پورے خطے کی سلامتی کو متاثر کر رہا ہے۔ ژینس اسٹولٹن برگ نے کہا، ’’نیٹو ماسکو کے ساتھ سیاسی مکالمت کا خواہش مند ہے، نہ کہ ہتھیاروں کی کوئی نئی دوڑ شروع کرنے کا۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ماسکو کے ساتھ یہ بات چیت آسان نہیں ہو گی۔‘‘