نائن الیون کے ایک عشرے بعد، پاکستان مزید کمزور اور غیر محفوظ
30 اگست 2011یہ گیارہ ستمبر کی شام تھی جب پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں پر نیویارک کے جڑواں ٹاورز پر ہونے والے حملوں کے خوفناک مناظر دکھائے جانے لگے۔ اس رات پاکستان میں بہت کم لوگوں کو نیند آئی، کیونکہ انہوں نے فوراﹰ ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ دنیا ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہے اور کئی برس تک اپنے مقاصد کے لیے انتہاپسند تحریکوں کی سرپرستی کرنے والا پاکستان اب سب کی نگاہوں کا مرکز تھا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے بہت کچھ لکھنے والے مصنف امتیاز گل نے کہا، ’’میرے ذہن میں آنے والا سب سے پہلا خیال یہ تھا کہ پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہونے والا ہے۔ میرا خدشہ درست ثابت ہوا اور گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد پاکستان میں تاریخ کا بدترین عدم تحفظ پیدا ہو گیا۔‘‘ اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے واشنگٹن کی عائد کردہ شرائط کو ماننے میں دیر نہ لگائی اور 19 ستمبر کو اعلان کیا کہ امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان اپنی فضائی حدود، سرزمین اور صلاحیتوں کی پیشکش کرے گا۔
جب امریکہ اپنے جنگی منصوبوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھا تو پاکستان نے افغانستان میں اپنے طالبان اتحادیوں کو ہر ممکن طریقے سے اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر کے تباہ کن فوجی کارروائی سے بچ جائیں، مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
چند ہفتوں بعد اسامہ بن لادن، ان کے مستقبل کے جانشین ایمن الزواہری اور طالبان نے امریکی حملوں سے بچنے کے لیے پاکستان میں پناہ لے لی۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں انہوں نے دوبارہ منظم ہو کر افغانستان میں جاری بغاوت میں مدد کے لیے اڈے بنا لیے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے انتہاپسند نوجوانوں کو تربیت دینے کے لیے القاعدہ کے تربیتی کیمپ بھی قائم کر لیے گئے۔ ان چیزوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران دنیا کی واحد مسلم جوہری طاقت پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا، جس کی اس ریاست کی 64 سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جولائی 2007 میں اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد میں نفرت کی تبلیغ کرنے والے عسکریت پسندوں کی سرکوبی کے لیے کیا جانے والا آپریشن ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جس کے بعد عسکریت پسندوں نے ریاست کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا۔
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک میں ہونے والے پانچ سو کے قریب بم حملوں میں 4,600 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ رواں سال امریکہ کو جب پتہ چلا کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں فوجی اکیڈمی کے قریب رہائش پذیر ہے، تو مئی میں ہونے والی امریکی کمانڈوز کی ایک کارروائی میں بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا، جس سے شکوک و شبہات کے پردوں میں لپٹے ہوئے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مزید دراڑیں پڑ گئیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد شہرہ آفاق کتاب ’طالبان‘ کے مصنف احمد رشید کے خیال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان مکمل طور پر تنہا ہو چکا ہے اور ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، کمزور ریاست اور نسلی شورشوں کو ہوا ملی ہے۔ تاہم انہوں نے اس کا الزام پاکستان پر لگایا، جس نے امداد میں ملنے والی رقم کو ضائع کیا اور اپنی قومی سلامتی کی ترجیحات کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں اس کے 35 ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ فوج نے 2001ء کے بعد تین ہزار کے قریب فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان میں تشدد اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران تیس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر ایک لاکھ سینتالیس ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
مگر ان سب اقدامات کے باوجود ملک میں انتہاپسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے قبائلی علاقوں میں ہر چند روز بعد کسی نہ کسی ڈرون حملے سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں شورش پسندوں اور خودکش بمباروں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو رہی ہے۔ پاکستانی سکیورٹی ڈھانچہ جن جہادی گروپوں کو کشمیر میں بھارت کے خلاف اور افغانستان میں لڑنے کے لیے اپنا اہم اثاثہ سمجھتا تھا، اب انہوں نے ہی پاکستان پر بندوقیں تان لی ہیں۔ صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان دس سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ غیر محفوظ ہے کیونکہ افغان جنگ میں اضافے کی وجہ سے وہ خود میدان کار زار بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان گیارہ ستمبر کے بعد ملنے والی امداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو درپیش اہم مسائل کو حل کر سکتا تھا مگر اس جانب توجہ نہ دینا سب سے بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ اب سب کو بھگتنا پڑے گا۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک