نیپال میں ایڈز سے بچاؤ کی مہم کی حالتِ زار
11 اکتوبر 2011ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے سرگرم ايڈز رفاہی ادارے بليو ڈائمنڈ سوسائٹی نے کہا ہے کہ وہ تین مہینے سے دور افتادہ علاقوں میں کام کرنے والے اپنے کارکنوں کو اُن کی ماہانہ اجرت ادا نہیں کر پائی ہے۔ ان کارکنوں کو صرف تین ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔
اس گروپ کے سربراہ اور نيپالی رکن پارلیمان سنیل بابو پنت نے بتایا کہ نيپال کے دور افتادہ علاقوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد تقريباً چار سو ہے اور ان ميں سے کئی ایک ايچ آئی وی وائرس کا بھی شکار ہیں۔ ان کا بنيادی مقصد لوگوں کو محفوظ جنسی تعلقات کی اہمیت سے آگاہ کرنا، کنڈومز تقسيم کرنا اور ايچ آئی وی اور جنسی تعلقات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
پنت نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں مانع حمل طريقے مفت دستياب نہيں ہیں، چنانچہ وہاں اُن کے زيادہ تر ملازم بھی کنڈومز استعمال نہیں کر رہے ہيں۔
ورلڈ پاليسی انسٹيوٹ نامی تھنک ٹینک نےاس ہفتے اپنے ایک بلاگ ميں لکھا کہ نيپال ميں ايڈز کے خلاف برسرپيکار غير سرکاری اداروں کے لیے دس ملين ڈالر کی امداد مختص کی گئی ہے تاہم حکومت یہ رقم ان اداروں کے حوالے نہیں کر رہی۔
يہ رقم 2009ء سے التوا کا شکار چلی آ رہی ہے، جب کٹھمنڈو حکومت نے ایڈز سے متاثرہ افراد کی شرح ميں بتدريج کمی کا حوالہ دیتے ہوئے ايچ آئی وی ايڈز کے تربيتی پروگراموں کی امداد بند کرنے کا اعلان کيا تھا۔ اگرچہ عالمی بنک کے دباؤ کے نتیجے میں نيپال کو اپنا یہ فيصلہ واپس ليناپڑا ليکن دفتر شاہی کی رکاوٹوں اور دیگر مسائل کے باعث اب تک یہ رقم جاری نہيں ہوئی ہے۔
ورلڈ پاليسی انسٹيوٹ بلاگ کے مصنف کائيل نائيٹ نے کہا ہے کہ غير متحرک افسر شاہی نيپال کے ناتجربہ کار جمہوری نظام ميں نئی نہیں ہے لیکن اس بار اس صورتِ حال کے نتائج اُن افراد کے لیے زیادہ سنگین ثابت ہوں گے، جن کا انحصار غير سرکاری اداروں کی امداد پر بڑھتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ايچ آئی وی ايڈز پروگرام کے اندازوں کے مطابق نيپال کی بالغ آبادی کا اندازاً ايک فيصد ايچ آئی وی پازيٹو ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی