ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر بولٹن کو برطرف کر دیا
11 ستمبر 2019امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جان بولٹن کو عہدے سے ہٹانے کے بارے میں کئی ٹویٹس کیں، ''میں نے گزشتہ شب جان بولٹن کو بتا دیا کہ وائٹ ہاؤس کو ان کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔ انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں کی طرح مجھے بھی ان کی زیادہ تر تجاویز سے شدید اختلاف تھا۔‘‘
تاہم دوسری جانب بولٹن نے اس واقعے کے بارے میں کچھ اور ہی کہانی سنائی ہے۔ ان کے بقول انہوں نے پیر کی شب خود ہی استعفی دینے کی پیشکش کی تھی، جس کے جواب میں ٹرمپ نے انہیں کہا تھا،'' اس بارے میں کل بات کریں گے‘‘۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق حالیہ ہفتوں کے دوران وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور جان بولٹن ٹرمپ پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں پومپیو نے کہا کہ خارجہ امور کے حوالے سے ان کے خیالات بعض اوقات بولٹن سے مختلف رہے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس بولٹن کے مستعفی ہونے سے قبل منقعد ہوئی تھی اور اس میں انہیں بھی شرکت کرنا تھی۔
ایرانی حکومت کی جانب سے جان بولٹن کی رخصتی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ تہران حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے ٹویٹ کی، ''جان بولٹن نے کئی ماہ قبل یقین دلایا تھا کہ ایران تین مہینوں سے زیادہ موجود نہیں رہے گا۔ ہم یہیں کھڑے ہیں اور وہ نہیں۔‘‘ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کی آمر حکمرانوں سے براہ راست ملاقاتوں پر بولٹن کو اعتراض تھا اور وہ حکومت کی تبدیلی کو ایک بہتر امکان سمجھتے تھے۔
بولٹن آرمی کے جنرل ایچ آر میک ماسٹر کے بعد قومی سلامتی کے مشیر بنے تھے۔ وہ ٹرمپ کے دور حکومت میں اس عہدے پر فائز ہونے والی تیسری شخصیت تھے۔ بولٹن نے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دور میں کیا تھا۔ ان کا شمار انتہائی قدامت پسندانہ سوچ رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جارج بش کے عراق پر حملہ کرنے کے فیصلے کی بھی حمایت کی تھی اور وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے حق میں بھی نہیں تھے۔