پاکستانی ارکان پارلیمان کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال شروع
1 جولائی 2010ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد نعیم نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کو جمعرات کے روز ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تین سو چودہ ڈگریاں جانچ پڑتال کے لیے فراہم کر دی گئی ہیں۔
ان ڈگریوں میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر، مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت کئی معروف سیاسی شخصیات کی ڈگریاں بھی شامل ہیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان کی ڈگریوں کے مستند ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور ایل ایل بی اور بعد ازاں ایم اے صحافت کی ڈگر ی حاصل کر رکھی ہے۔
وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر زاہد کریم کو ان ڈگریوں کی جانچ پڑتال جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء امتحانات میں ایک خصوصی ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے۔
ڈاکٹر نعیم کےمطابق چونکہ پنجاب یونیورسٹی ملک کی سب سے قدیم اور ایک بڑی جامعہ ہے اورسب سےزیادہ پارلیمنٹ اراکین اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں اسی لئے زیادہ تر ڈگریوں کی جانچ پڑتال یہی ہو گی۔
ادھر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم کا کہنا ہے کہ ان کی یونیورسٹی کوبھی 106 ارکان پارلیمان کی ڈگریاں موصول ہو گئی ہیں۔ اسی طرح ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کو بھی ڈگریاں جانچ پڑتال کے لئے موصول ہو رہی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے لگ بھگ 1100 اراکین کی ڈگریوں کی پڑتال کے احکامات جاری کیے تھے۔اب تک ایک درجن سے زائد اراکین اسمبلی کو جعلی ڈگریوں کی وجہ سے اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں جبکہ پچاس سے زائد ممبران کے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے مقدمات مختلف الیکشن ٹریبونلز میں زیر سماعت ہیں۔
الیکشن کمشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہہ چکے ہیں کہ 140اراکین پارلیمنٹ کی تعلیمی اسناد جعلی ہو سکتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2002ء میں پاکستان میں اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے اراکین پارلیمنٹ کا بی اے پاس ہونا قانونی طور پر ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔ اگرچہ اب یہ شرط ختم کر دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کئی ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریوں کے حوالے سے پریشانی کا سامنا ہے اور ان پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے جعلسازی اور بد دیانتی کا ارتکاب کیا اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں رہے ۔
بعض مبصرین کے مطابق اگر بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کی ڈگریاں جعلی نکلیں تو سینکڑوں حلقوں میں ضمنی انتخابات کرانے کی بجائے حالات مڈ ٹرم الیکشن کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔
ادھر ہائیر ایجو کیشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری نے کہا ہے کہ اگر کسی رکن پارلیمنٹ کی ایک بھی سند جعلی ہوئی تو اس کی تمام ڈگریاں مشکوک تصور کی جائیں گی۔ پاکستان کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی، میٹرک سے لیکر ہائیر ایجو کیشن تک کی تمام تعلیمی ڈگریوں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر جاوید لغاری کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 161 ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی عکسی نقول مخدوش حالت کے پیش نظر انہیں واپس بھجوا دی ہیں جبکہ 35 ارکان پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلوبہ دستاویزات ابھی تک فراہم نہیں کی ہیں۔
پاکستان میں 36 ارکان اسمبلی نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے انکی تعلیمی ڈگریوں کی جانچ پڑتال غیر ملکی تعلیمی اداروں سے کروائی جا رہی ہے۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی ایک تعلیمی ڈگری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کے مخالفین کے مطابق صدر زرداری لندن سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی ایک برطانوی تعلیمی ادارے سے گریجویشن کے دعوے دار ہیں لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ اس نام کا کوئی معروف تعلیمی ادارہ وجود ہی نہیں رکھتا۔
ملک کے سیاسی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کا حالیہ بیان بھی زیر بحث ہے جس میں انہوں نے کہا تھا، ’’ ڈگری، ڈگری ہی ہوتی ہے خواہ وہ جعلی ہو یا پھر اصلی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
رپورٹ : تنویر شہزاد
ادارت : شادی خان سیف