پاکستانی فوج نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی، امریکہ
12 جنوری 2012پینٹا گون میں بریفنگ کے دوران ترجمان اور بحریہ کے کیپٹن جان کربی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’’یہ معاملہ پاکستانی حکام، ان کی حکومت اور سویلین و عسکری قیادت کا ہے۔‘‘
پینٹاگون نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے منگل کو اپنے پاکستانی ہم منصب جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔ ان کی بات چیت کی تفصیلات تو نہیں بتائی گئیں لیکن یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اکیس دسمبر کے بعد یہ ان کا پہلا رابطہ تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ڈیمپسی غیرمعمولی طور پر کیانی کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ وہ پاکستانی جنرل کو 1988ء سے جانتے ہیں ۔ اس وقت دونوں کنساس میں امریکی فوج کے کمانڈ اینڈ جنرل اسٹاف کالج میں ساتھ تھے۔
پاکستان کی عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان میمو اسکینڈل پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے حالیہ انٹرویو پر بدھ کو فوج کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے جبکہ اسی روز گیلانی نے سیکرٹری دفاع کو بھی فارغ کر دیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے لیے پاکستان کی نئی سفیر شیری رحمان نے بدھ کو محکمہ خارجہ میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے ملاقات کی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے اس ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بارے میں بات چیت کرنے کا موقع قرار دیا۔
پاکستان کے سیاسی عدم استحکام پر سوال کیا گیا تو نولینڈ نے کہا کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفیر صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات ہیں۔
انہوں نے کہا: ’’ہم پاکستان میں تمام فریقین کو پاکستانی آئین کے دائرہ کار میں عمل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
نولینڈ نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج کے ساتھ مضبوط تعلقات کے باوجود امریکہ وہاں سویلین حکومت کی حمایت کرتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / اے پی
ادارت: حماد کیانی