پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کا رجحان کم تر
21 فروری 2019پاکستان سیاسی اور معاشی دونوں حوالوں سے ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہے۔ 2018ء میں پانچ سال بعد دوبارہ انتخابات ہوئے، تو ان کے نتیجے میں سویلین سطح پر انتقال اقتدار کا مرحلہ اپنی تکمیل کو پہنچا، جو اس ملک کی تاریخ میں مقابلتاً بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ 2017ء میں دو دہائیوں کے وقفے سے قومی سطح پر مردم شماری بھی کرائی گئی، جس کے نتائج کے مطابق ملک میں مذہبی اقلیتوں کی مجموعی تعداد کم ہوئی ہے۔
حالیہ برسوں میں ملک میں نشریاتی ذرائع ابلاغ حکومتی کنٹرول کے دور سے آگے نکل کر ایک فروغ پاتی نجی صنعت کی شکل اختیار کر گئے ہیں جبکہ خبروں کے حوالے سے آن لائن میڈیا کا حصہ بھی بڑھ گیا ہے اور سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کا عمومی بیانیہ بھی اقتدار کی سیاست کے کھلاڑیوں کے سحر سے نکل کر انسانی حقوق پر مرکوز ہوتا نظر آتا ہے۔
پاکستان کا سیاسی، مذہبی، نسلی اور لسانی تنوع آج اس نہج پر ہے، جہاں اس کا گہرا مطالعہ اور تفصیلی جائزہ لیا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسی حوالے سے پاکستانی سول سوسائٹی کے ایک ادارے نے ملکی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی پر اہم تحقیق کی ہے۔ یہ تحقیق انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کے تعاون سے کی گئی۔
اس تحقیق کے مقاصد بیان کرتے ہوئے پاکستانی غیر حکومتی ادارے انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ) کے سربراہ محمد آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی اگرچہ محض چند فیصد ہے لیکن یہ تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پاکستانی مذہبی اقلیتیں سماجی اور سیاسی تبدیلی کے موجودہ دور میں ملکی میڈیا میں اپنی نمائندگی کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔
اس ریسرچ کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے آفتاب عالم نے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں کے مخصوص مسائل کی کوریج کا رحجان بہت کم ہے اور انہیں عموماً خبروں سے باہر ہی رکھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں سے متعلق ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان سے متعلق خبروں اور تصاویر میں میڈیا کی دلچسپی نہ صرف بہت کم ہے بلکہ انہیں زیادہ تر میڈیا کوریج میں مصیبت زدہ سماجی طبقے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
آفتاب عالم کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو بالعموم میڈیا میں ایک ایسے غیر جانبدار طبقے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جسے نہ تو کوئی مسائل درپیش ہیں اور نہ ہی جس کی مشکلات کے حل کے لیے کسی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ان حالات میں ان مذہبی اقلیتوں کی ملکی میڈیا کے بیانیے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت مزید کم ہو جاتی ہے۔
’ارادہ‘ کے سربراہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں سے متعلق تھوڑی بہت کوریج مخصوص نوعیت کے ردعمل پر مبنی یا پھر واقعاتی ہوتی ہے، جس پر تجزیہ بہت کم ہوتا ہے یا بالکل کیا ہی نہیں جاتا۔ ’’یوں اقلیتوں کے مفادات اور ان کے حقوق کے حوالے سے سوچ محدود ہو جاتی ہے۔‘‘
اس حوالے سے جمعرات اکیس فروری کو اسلام آباد میں ہوئی ایک تقریب میں شریک پاکستانی سینیٹ کے سابق رکن افراسیاب خٹک نے کہا، ’’پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی میڈیا میں ناکافی اور نامناسب نمائندگی کے معاملے کو ملک کے جمہوری اور آئینی سوال سے علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ مذہبی اقلیتیں جمہوریت کے ساتھ ہی مضبوط ہوں گی، اس کے بغیر نہیں۔‘‘
پاکستان کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رومانہ بشیر نے، جو مذہبی اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے بہت سرگرم ہیں، اس ریسرچ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس ریسرچ کے نتائج حیران کن نہیں لیکن افسوس ناک ضرور ہیں کیونکہ وہ موجودہ حقائق کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘
رومانہ بشیر نے مزید کہا، ’’مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں اور میڈیا کی لیڈر شپ کے درمیان اس بات پر مکالمہ ضروری ہے تاکہ اقلیتوں کے بارے میں دقیانوسی تصورات کا تدارک کیا جاسکے اور اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا جائے کہ عوام کے مفادات کا محافظ ہونے کے حوالے سے میڈیا اقلیتی برادریوں کے حقوق کا بھی تحفظ کر سکے۔‘‘
اسلام آباد میں منعقدہ اس اجلاس میں دیگر شرکاء نے تجاویز پیش کیں کہ مذہبی اقلیتوں سے متعلق میڈیا کوریج میں معیار اور حجم کی بہتری کے چیلنج سے نمٹنے اور اس موضوع پر میڈیا میں پیشہ ورانہ رویوں کو فروغ دینے کے لیے ذرائع ابلاغ میں خبروں کے تنوع سے متعلق عوامی آگہی میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ میڈیا کی مذہبی تکثیرت اور مذہبی اقلیتوں کی حساس انداز میں کوریج کی تربیت بھی کی جانا چاہیے۔
اس کے لیے مذہبی اقلیتوں اور میڈیا کے نمائندوں کے درمیان باقاعدہ باہمی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جبکہ مذیبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور آن لائن میڈیا پر کام کرنے والے کارکنوں کی زیادہ بہتر پیشہ ورانہ تربیت بھی بہت مددگار ثابت ہو گی۔